لوگ سمجھتے ہیں کہ کربلا بدر کے بدلہ کا دن ہے۔ نہیں، بدلہ ہوتا تو کامیاب نا ہو جاتا؟ بدر کے مقتولوں کے نام بھی یاد کرنے پڑتے ہیں اور اسکے برعکس آج بھی نام حسین ع زندہ و کامیاب ہے۔ بھلائے بھی نہیں بھولتا۔
ہجرت کی شب سیدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا “یا علی میرے بستر پہ سو جاو”۔ سیدنا علی ع سو گئے۔ کیا جناب علی رض پہ حکم فقط سونے کا تھا؟ نہیں بلکہ تمام تر خطرات نے جب پیغام نبوت کا محاصرہ کر لیا تو جناب علی ع کو حکم نبوت ملا کہ وہ خود کو اس بستر پہ لٹا لیں جہاں جان جانا یقینی لگ رہا تھا۔ یعنی یہ نبوی حکم رہا جناب علی ع کیلئیے کہ پیغام نبوت کی حفاظت کیلئیے خود کو قربان کرنے کیلئیے حاضر رہیں۔
کچھ فرض باپ بیٹوں کو وراثت میں دیتے ہیں۔ پیغام نبوت کی حفاظت کا یہ فرض سیدنا علی ع نے وراثت میں اپنے دونوں بیٹوں کو دیا۔ سیدنا حسن ع کی صلح اور سیدنا حسین ع کی جنگ؛ دونوں ہی سیدنا علی ع کے اس فرض کی وراثت کو پورا کرنے کیلئیے تھیں۔
سیدنا حسین ع کیا حکومت لینے اٹھے تھے؟ کیا سیدنا حسین ع نے کہیں بھی کسی بھی جگہ یہ کہا کہ کیونکہ میں جناب نبی ص کا نواسہ ہوں سو اقتدار میرا حق ہے؟ کیا جسکے اجداد کو انکے اجداد بطور طلقا امداد دیتے رہے اس سے دولت و منصب مانگنے آئے تھے؟ نہیں بلکہ وہ فقط ایک اصول پہ اٹھے تھے کہ باطل کی بیعت نہیں ہو گی، حق باطل کے آگے نہیں جھکے گا۔ کیا پیغام نبوت یہ ہی نا تھا کہ حق کبھی باطل کے آگے نا جھکے گا؟ سو سیدنا حسین رض اسی پیغام نبوت کی حفاظت کیلئیے قربانی کے اس بستر پہ لیٹ گئے تھے جس پہ کبھی انکے والد لیٹے تھے۔ باپ بھی خطرات کے مکمل ادراک کے باوجود اس بستر پہ لیٹے تھے اور بیٹے بھی۔ پائے استقلال میں لغزش، ارادے میں تذبذب اور یقین میں شک کی کوئی آمیزش نا والد کے فیصلہ لینے میں رکاوٹ بنی نا بیٹے کے۔
اعلان نبوت کے موقع پہ “میں آپ کا ساتھ دوں گا” کہہ کر اور شب ہجرت خطرے کے بستر پہ سو کر، نبوت سے جو وعدہ گرامی قدر والد نے کیا تھا، کربلا میں سر کٹا کر عالی قدر بیٹے نے پورا کر دیا۔
قالو انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
انعام رانا