مجھ سے کوئی پوچھے کہ وہ کون شخص ہے جس نے سب سے بڑھ کر فکرِ حسین کی اصابت اور درستگی کو ثابت کیا تو میں کہوں گا وہ یزید ہے. واقعۂ کربلا کے بعد اس کے لیے ممکن تھا کہ وہ اپنی اور اپنی حکم رانی پر لگنے والے اس دھبے کو اپنے طرزِ عمل سے دھو دیتا، ایسا کرنے کی صورت میں وہ تاریخ میں نسبتاً بہتر جگہ پا سکتا تھا اور یہ ثابت کر سکتا تھا کہ حسین کو غلطی لگ گئی وگرنہ وہ اتنا بھی برا نہیں تھا، جو کام بے چارے آج یزید کے وکیل کر رہے ہیں وہ خود یزید کے کرنے کا تھا. لیکن اللہ کو یہی منظور تھا کہ وہ اپنی باقی ماندہ مختصر زندگی نئے آنے والے سسٹم کی گندگی واشگاف کرنے پر وقف کر دیتا. یزید خود بتا کر جاتا کہ اس تغییرِ سنت اور یتبع غیر سبیل المؤمنین کے آغاز پر خلیفۂ اول کے صاحبزادے اور صحابی رسول عبد الرحمن بن ابی بکر رض نے مسجدِ نبوی میں بر سرِ عام جو بھرپور اختلافی نوٹ درج کروایا تھا (جس پر ام المومنین حضرت عائشہ کی تقریر کی مہر بھی ثبت ہے) اور حسین کی اس تغییر کے خلاف جو بے کلی اور بے چینی تھی وہ بالکل برحق تھی. اس لیے حسین کی سچائی کی ایک بڑی دلیل خود یزید کا باقی ماندہ دور ہے. یزید کا دور مکمل ہونے کے بعد اس کے کردار پر جزوی بحث کی ضرورت اس لیے نہیں رہتی کہ وہ خود بتا گیا ہے کہ میں کیا ہوں.
دیکھیں، مثلاً جب آئین سے انحراف کرتے ہوئے یحییٰ خان بر سرِ اقتدار آیا تو ملک کے صالحین کی اکثریت نے خاموشی ہی رکھی اور اسے جناب صدرِ مملکت ہی کہتے اور لکھتے رہے، کیا اس کی بنیاد پر اس کی اس تصویر کا انکار کیا جا سکتا ہے جو خود اس نے تاریخ پر ثبت کی. ہرگز نہیں. ایسے موقع پر فرق کسی تبدیلی کے دور رس مضمرات کو سمجھنے کا ہوتا ہے.
جن صحابہ نے اس وقت رخصت کا راستہ اختیار کیا ان کے لیے یقیناً یہ رخصت موجود تھی، اس رخصت کا تذکرہ صریح احادیث میں ہے، لیکن اہلِ رخصت کا حوالہ دے کر کسی صاحبِ عزیمت پر حجت قائم نہیں کی جا سکتی. لوگ کہتے ہیں اتنے لوگ خاموش رہے (اگرچہ اتنے عموم کے ساتھ یہ بات بھی محل نظر ہے) ، بھئی خاموش رہے تبھی تو اس انحراف کے خلاف بھاری بھر کم گواہی کی ضرورت تھی. یہ مسندِ اقتدار تو اللہ کے نبی اور خلفاے راشدین کی چلی آرہی تھی، یہ بھی نظامِ تکوین نے ثابت کرنا تھا کہ یہ جو اس بد بخت دور میں گُل کِھلے ہیں وہ اس مقدس مسند کے نہیں اس سے انحراف کے کڑوے پھل ہیں. اس انحراف کے خلاف پہلی سرِ عام گواہی خلیفہ اول کے بیٹے نے دی اور اس سے کہیں بڑی، بہت بڑی اور سب سے بڑی گواہی اللہ نے آخری خلیفہ کے بیٹے اور سبطِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے دلوائی.
مفتی محمد زاہد