جا وید غامدی صاحب کے جواب میں
اس معاملے کو اسلام اور عقیدت کی عینک سے ہٹ کر دیکھیں، تو ہمیں بعض باتیں معلوم ہوتی ہیں، جاوید غامدی نے اپنی حالیہ ایک وڈیو میں کہا کہ علی بن ابی طالب کی خلافت کا انعقاد وقت اور حالات کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے معاویہ کی بغاوت، کو ہم بغاوت نہیں کہہ سکتے۔ اس بات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ اسے دور رسول سے بھی پہلے، قریش کی مکہ پر قبائلی حکومت اور قبائلی نظام کی فطرت کو بیان کرنے سے دیکھنا چاہیے مگر میں اپنی تحریر کو جامع اور مختصر کرنے کی غرض سے بات کو آگے سے بیان کرونگی۔
غامدی کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد، مسلمانوں کے سیاسی حالات میں، غیر معمولی تبدیلی واقع ہوئی اور غامدی نے محض ایک ہی تبدیلی کو مینشن کیا اور وہ تھی، ریاستی حدود میں ایک غیر معمولی اضافہ۔ مگر حالات اور مسلمہ تاریخی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ محض ایک ہی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھیں، بلکہ قتل عثمان کے محرکات، لوگوں کے احتجاج، اور باقی معاملات کو بھی سٹڈی کیا جائے تو یہاں تبدیلی چار طرح کے واقع ہوئے تھے
پہلی: مسلمانوں کی حکومت اب تین براعظموں تک پھیل چکی تھیں
دوسری: کہ جس بنا پر ابوبکر حاکم بنے، کہ اقتدار قریش کے ہاتھوں ہونی چاہیے اور چونکہ ہم قریش کی تاریخ سے جانتے ہیں، کہ قریش میں تمام قبائل ہی عرب میں معروف نہیں تھے بلکہ ان میں بنی ہاشم اور بنی امیہ ہی قریش کی قیادت کرتے نظر آتے تھے، ابوبکر اور عمر نے اقتدار کبھی بھی ان دو قبیلوں میں آنے نہیں دی کہ جسکی وجہ سے بعد میں کہیں اشرافی حکومت یا اجاراداری پیدا نہ ہو جائے مگر عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد، بنی ہاشم کے ایک تاریخی دشمن اور قریش کے دو بڑے قبیلوں میں سے کسی ایک کے پاس یہ اقتدار آگئی تھیں
تیسری: ابوبکر اور عمر کی دور خلافت میں، عہدے قابلیت کی بنا پر دیے جاتے تھے، مگر عثمان کے عہد اقتدار میں بنی امیہ کی ایک نئی آفسر شاہی پیدا ہوچکی تھیں یعنی اگر حکومت بیس شعبوں پر مشتمل تھیں تو 15 شعبوں میں بلواسطہ یا بلا واسطہ بنی امیہ کے عہدیدار ہی برسر اقتدار تھے۔
چوتھی: جو آفسر شاہی، بنی امیہ کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی، وہ کرپٹ تھی، لوگوں کا احتجاج جو عثمان کے خلاف اٹھا وہ بے معنی نہیں تھا۔ کوفہ، مصر اور شامی علاقوں کے گورنرز نے معیشت پر کنٹرول جمع لیا تھا۔ لوگوں نے ایک بڑی تعداد میں عثمان کے خلاف احتجاج کا علم بلند کیا اور بلآخر عثمان اپنے گھر میں قتل کردیے گئے یعنی لوگوں نے عثمان کے نامزد عمال حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
لہذا یہ دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہے، کہ جب تک ایک نئی آئین تشکیل نہیں دی جاتی تب تک فیصلے سابقہ دستور کے مطابق ہی کیے جاتے ہیں۔ اسکو آپ موجودہ دور کے ایک مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ محمد علی جناح کو اقتدار 1973 کے آئین کے تحت منتقل نہیں ہوئی، بلکہ انہیں انگریزی قانون کے تحت برسرِ اقتدار لایا گیا، وگرنہ وہ گورنر جنرل کے عہدے پر فائز نہ ہوتے بلکہ پاکستان کے پہلے صدر بنتے، چونکہ دنیا میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی جگہ کوئی نئی قانونی تبدیلی نئی آتی لہذا تب تک پرانے قوانینِ کے تحت ہی حکومتوں کی تشکیل ہوتی ہے اور علی بن ابی طالب اسی دستور اور قانون کے تحت جو سقیفہ بنی ساعدہ میں وجود میں آیا تھا،برسر اقتدار آگئے
دوسرا نکتہ، اگر آپ اسلامی دنیا کے میپ دیکھیں تو آپکو معلوم ہوگا کہ حجاز، یمن، بصرہ، کوفہ، فارس، خراسان اور مصر نے علی بن ابی طالب کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھیں اور منکرین میں صرف شامی ہی تھے۔آپ جملی فوج میں ان لوگوں کو نہیں گن سکتے کیونکہ ان لوگوں نے بغاوت نہیں کی تھیں بلکہ وہ صلح کرنے کی غرض سے نکلے تھے اور بعد میں ان لوگوں نے بھی اقدام غیر قانونی کیے۔ جمہوریت کے اصولوں کے تحت بھی علی بن ابی طالب ہی حاکم بن گئے تھے۔
تیسرا نکتہ، علی بن ابی طالب کی حکومت ایک نزع کی کیفیت میں پیدا ہوئی، اسی اصول کو جب ابوبکر کی خلافت پر دیکھتے ہیں تو انکی خلافت امرہم شوری بینہم کے تحت وجود میں تو نہیں آئی تھی، اسے عمر بن خطاب نے خود تسلیم بھی کیا کہ وہ ایک نزع کی صورت تھیں،کہ جس میں ابوبکر کا انتخاب ہوا، مگر سوال یہ ہے کیا، ساری اسلامی قیادت نے انہیں منتخب کرلیا تھا؟ اسلامی قیادت میں علی بن ابی طالب، عثمان بن عفان، زبیر بن العوام، سعد بن عبادہ، سلمان فارسی، عبدالله بن عباس، عباس بن عبد المطلب، ابو ذر غفاری، عمار بن یاسر، مقداد بن اسود اور دیگر اکابرینِ انصار و مہاجرین بھی تھے، مگر کیا ان سے رابطہ کیا گیا؟ اس پر استاذ امام کہتے ہیں کہ چونکہ وہ ایک قبائلی نظام تھا لہذا رؤسائے قبائل نے انہیں حاکم بنایا لیا تو وہ بن گئے مگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اخبار احد کا نہیں بلکہ بقول غامدی صاحب کے مسلمہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اکثر قبائل نے اس حکومت کو تسلیم کیا ہی نہیں، زکوٰۃ یعنی ٹیکس دینے سے بھی انکار کیا، وہ مدینہ کے قریب بھی آگئے۔ لہذا شورائی نظام کو مدنظر رکھ کر ابوبکر کی خلافت کا فیصلہ نہیں ہوا، جب ان قبائل نے تعاون سے انکار کیا، تو اسکے نتیجے میں مسلمان کی پہلی خانہ جنگی شروع ہوئی اور بلآخر تلوار کے زور پر انہیں اطاعت پر لایا گیا۔ علی بن ابی طالب کا احتجاج بھی کوئی تاریخی افسانہ نہیں بلکہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے۔ ذیل میں ایک نقشہ ہے جسمیں سبز نشان خلافت ابوبکر کے سرکاری حدود ہیں اور جہاں تلوار کے نشان ہیں، وہاں جنگوں کو ظاہر کیا گیا ہے جو ابوبکر نے اپنے جرنیلوں کے ذریعے ان قبائل پر مسلط کی تھیں۔ یعنی ابوبکر کی خلافت کے سرکاری حدود حجاز اور دیگر جند علاقوں تک ہی محدود ہوگئے تھے
چوتھا نکتہ، جب ابوبکر کی خلافت اگر نزع کی صورت میں پیدا ہوگئی اور خانہ جنگی کے باعث انکی خلافت ناجائز قرار نہیں پائی تو اس سے کم مخالفت کی بنیاد پر علی بن ابی طالب کی حکومت کیونکر منعقد نہیں ہوگی۔ غامدی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اس زمانے میں تمام علاقوں سے بیعت رضامندی لینے کے لیے مہینوں کا وقت درکار ہوتا تھا، تو کیا عثمان کے قتل کے بعد جو مدینہ میں ایک سیاسی بحران آگیا تھا، اسے سلجھانے کے بجائے انتطار کرکے ٹال دیا جاتا؟ رسول اللہ کی وفات کے بعد چند ہی گھنٹوں میں سقیفہ بنی ساعدہ میں بنی ہاشم کو خبر کیے بغیر ہی ایک خلیفہ منتخب کیا گیا اور اس وقت کوئی سیاسی بحران بھی موجود نہیں تھی وہ اگر درست تھا تو ایک خانہ جنگی کے وقت اور بہت ہی سنگین حالات کے وقت ایک شورائی حکومت قائم کیوں قائم نہیں ہوئی؟
لہذا جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ وہ نہیں جو جاوید احمد غامدی بیان کررہے ہیں بلکہ معاملہ یہی ہے کہ معاویہ بن ابو سفیان باغی تھے اور اس نے جنگی جرائم بھی کیے، اسکی زندہ مثال گورنر مصر حضرت محمد بن ابوبکر کی لاش کو جلادینے کی صورت میں دیکھنے کو ملی۔
پانچواں نکتہ، معاویہ بن ابو سفیان نے اسی خلافت راشدہ کی جنگی مشینری کو اسی حکومت کے خلاف استعمال کیا، اس نے شامی عمال حکومت کو علی بن ابی طالب کے خلاف پروپیگنڈے، الزامات اور لوگوں کو بہکانے میں استعمال کیا۔
چھٹا نکتہ، علی بن ابی طالب نے حکومتی دستور کو مدنظر رکھ کر معاویہ بن ابو سفیان کو شام کی گورنری سے معزول کردیا، لہذا اگر علی بن ابی طالب کی حکومت جائز نہیں تھی تو معاویہ کو رائے عامہ ہموار کرنا چاہیے تھا، اسے مدینہ آکر مجلس شوریٰ جو اس زمانے میں مسجد نبوی ہوا کرتی تھیں آکر بحث کرنی چاہیے تھیں، مگر اس نے بغاوت کا علم بلند کیا، یعنی ایک منتخب حکومت کے خلاف محض طاقت کی بنیاد پر کھڑا ہوگیا۔
ساتواں نکتہ، علی بن ابی طالب نے معاویہ سے یکسر جنگ کا اعلان نہیں کیا، بلکہ اسے دعوت دی کہ وہ آئے ہم سے ملے، اور جنگی ارادوں کو ترک کر دے، بار بار خطوط بھیجے گئے مگر جنگ کی ابتداء معاویہ نے کی۔
نائلہ علی
