کیا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ مجتہد مخطئ ہیں

کیا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ مجتہد مخطئ ہیں (یعنی اپنا اجتہادی غلطی کی بناء پر بھی ثواب کے حقدار ہیں جو انہوں علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی) ؟

اہل سنت میں بھی دو گروہ ہیں ان میں ایک حسن ظن پر اجتہادی غلطی پر محمول کرتا ہے اور دوسرا نہیں جن میں سے ایک حوالہ ہم نے پہلے علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ سے پیش کیا تھا۔

علامہ وزیر الیمانی (المتوفی 840 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہے :

انه تواتر عن الصحابة انهم كانوا يعتقدون في الباغي على أخيه المسلم وعلى امامه العادل انه عاص آثم وأن التأويل في ذلك مفارق للاجتهاد في الفروع فانهم لم يتعادوا على شيء من مسائل الفروع وتعادوا على البغي وكذلك أجمعت الأمة على الاحتجاج بسيرة علي عليه السلام في قتالهم وليس المجتهد المعفو عنه يقاتل على اجتهاده ويقتل ويهدر دمه

اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ وہ ایسے باغی جو اپنے مسلمان بھائی اور عادل حکمران کے خلاف بغاوت کرے اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ایسا شخص نافرمان گناہ گار ہے اور اس کی بغاوت کرنے کی تاویل مفارق للاجتہاد (یعنی اجتہاد سے جدا اور علیحدہ ہے) فروع میں۔ کیونکہ صحابہ کرام نے آپس میں کبھی بھی فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے دشمنی نہیں رکھی اور جب کہ باغی کے خلاف انہوں عداوت اور دشمنی رکھی ہے۔ اسی طرح امت کا اس بات پر اجماع ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے احتجاج کرکے باغیوں سے قتال کرنے میں اور ایسا مجتہد جس کو اجتہاد کی بناء پر غلطی معاف ہو اس سے اس کے اجتہاد کی بناء پر قتل وقتال نہیں کیا جاتا ہے (جیسے معاویہ کے ساتھ کیا گیا) اور نہ اس کا خون رائگا جاتا ہے۔

(إيثار الحق على الخلق 1/412)

تحریر : محمد کاشف خان (10/09/2019)