کیرئیر، فوکس، روٹین اور مولانا محمد اسحاق رح

(28 اگست2021، ابّا جی کی آٹھویں برسی)

میرے نانا جی مولانا محمد اسحاق رحمہ اللّٰہ کی حیات کے یہ تین گوشے ایسے ہیں جن کا تذکرہ ضروری خیال کرتا ہوں۔ خصوصاً نوجوانوں کو یہ جاننے کی حاجت رہتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے ارتکاز کو بہتر کرکے اپنی روٹین ٹھیک کریں اور اپنے کیریئر میں ترقی کر سکیں۔

مولانا رح کی دین اسلام کیلئے خدمات اور اتحاد بین المسلمین کیلئے کی جانے والی کاوشوں سے تو ایک جہان آگاہ ہے۔ لیکن انہیں اس مقام تک پہنچانے میں انکی چند عادات کا بہت اہم ہاتھ ہے۔

مولانا رح نے لڑکپن سے ہی دینی تعلیم کو اپنا کیرئر بنا لیا تھا۔ انکے والد گرامی کی خواہش تھی کہ اسحاق رح جج بنے۔ لیکن ابّا جی (مولانا رح) چودہ جماعتوں کے بعد کلی طور پر کتابوں کے ہو کر رہ گئے اور ادیان عالم کے متعلق موجود کتب کا ایک بڑا ذخیرہ کھنگال ڈالا۔ اس کیرئر سلیکشن نے انہیں اس مقام تک پہنچایا جہاں آج ایک عالم انہیں جانتا ہے۔

مولانا رح جتنا فوکس یعنی ارتکاز میں اپنی زندگی میں کسی اور کا نہیں دیکھا۔ ایک کتاب پکڑتے تو اس میں غرق ہو جاتے۔ آس پاس انکے اہل خانہ یا ملاقاتی بھی باتیں کرتے رہتے تو انکے مطالعہ میں چنداں فرق نہ پڑتا۔ ہاں اگر کوئی انہیں مخاطب کرکے سوال کرتا تو رُک کر جواب دیتے اور دوبارہ اسی سطر سے مطالعہ شروع کر دیتے جہاں سے ربط ٹوٹا ہوتا۔ بغیر اعراب کے چھوٹے حروف تہجی پر مشتمل عربی کی ضخیم کتب کم وقت میں پڑھ لیتے اور انہیں ایک ایک شے حفظ ہوتی تھی۔ آپ رح چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ یہ جو باتیں میں لکھ رہا ہوں انکے ساتھ وقت گزارنے والے یا انکی وڈیوز دیکھنے والے مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

روزمرہ کے معمولات یعنی روٹین کی بات کی جائے تو مولانا رح لڑکپن سے ہی تہجد گزار تھے۔ مطالعہ قرآن و اذکار کرتے۔ فجر ادا فرماتے اور تمام اہل خانہ کیلئے خوشبودار شربت بنا کر رکھ دیتے۔ اسکے بعد کہیں جانا ہوتا تو تیاری کرتے ورنہ کتاب ہوتی ، ایک کونہ ہوتا اور ابّا جی ہوتے! سورج اپنی جگہ بدل لیتا لیکن ابا جی متعدد پہر ایک ہی جگہ غرق کتاب رہتے۔ اس دوران اچھی خاصی تعداد میں فون کالز کا جواب ماتھے پر شکن لائے بنا دیتے۔ یہ سب کچھ ان کا عشق تھا اور عشق میں عُسرت کیسی؟ عشاء ادا کرکے گھر کے تالے لگاتے اور اذکار اپنے جسم پر پھونک کر محو استراحت ہوجاتے۔ ابا جی رح چلتا پھرتا الارم کلاک تھے۔ وقت پر پہنچنے کے اتنے عادی کہ اپنی گھڑی درست کی جا سکتی تھی۔

اس سب کے باوجود مولانا رح نے اپنی عائلی اور خانگی زندگی بھرپور گزاری۔ زمین کی آمدن اور امام مسجد کی قلیل تنخواہ سے گزر اوقات کی۔ مشکل وقت دیکھے لیکن اپنا کیرئر، فوکس، روٹین اور passion قربان نہیں کیا۔ کردیتے تو فیصل آباد کے نواحی گاؤں کے مولوی اسحاق رح کو ملک کی نامی جامعات اپنے ہاں لیکچر کیلئے نہ بلواتیں اور نہ ہی بیرون ممالک میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے طلباء اپنی ریسرچ میں ان سے معاونت حاصل کرتے۔

جو گزرا وہ وقت مولوی اسحاق رح کا تھا۔ جو آنے والا ہے وہ وقت مولانا اسحاق رح کی تعلیمات کا ہے۔ ہم نے گاؤں کی مٹی میں ان کا وجود تو سپرد خاک کیا ہے لیکن انکی تعلیمات کی کرنیں اس عالم کو منور کرتی رہیں گی۔

~ ڈاکٹر سعد حمید (نواسہ مولانا محمد اسحاق رح)