‎ہتھیار اُدھر لگا چکے آقائے خاص و عام

‎ہتھیار اُدھر لگا چکے آقائے خاص و عام

‎تیار اِدھر ہوا علمِ سیدِ انامؑ

‎کھولے سروں کو گِرد تھی سیدانیاں تمام

‎روتی تھی تھامے چوبِ علم خواہرِ امامؑ

‎تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے

‎زینبؑ کے لعل زیرِ علم آ کھڑے ہوئے

‎گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار

‎مرفق تک آستینوں کو اُلٹے بصد و قار

‎جعفرؑ کا رعب دبدبۂِ شیرِ کردگار

‎بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار

‎آنکھیں ملیں علم کے پھریرے کو چوم کے

‎اور اس کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے

‎گہ ماں کو دیکھتے تھے کبھی جانبِ علم

‎نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ اممؑ

‎کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم

‎آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم

‎کیا قصد ہے علیِؑ ولی کے نشان کا

‎اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا؟

‎کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہؑ خوش خصال

‎ہم بھی محق ہیں آپؑ کو اس کا رہے خیال

‎پاسِ ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال

‎اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپؑ کو ملال

‎آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں

‎عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں

‎بے مثل تھے رسولؐ کے لشکر کے سب جواں

‎لیکن ہمارے جسد کو نبیؐ نے دیا نشاں

‎خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں

‎پایا علم علیؑ نے مگر وقتِ امتحاں

‎طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں

‎پوتے اُنہیں کے ہم ہیں اُنہیں کے نواسے ہیں

‎زینبؑ نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام

‎کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امامؑ

‎دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام

‎بِگڑوں گی میں جو لو گے علم کا زباں سے نام

‎لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے

‎کیوں آئے ہو یہاں علی اکبرؑ کو چھوڑ کے

‎سرکو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس

‎ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہِ فلک اساس

‎کھونے کو اور آئے ہو اب تم مرے حواس

‎بس قابلِ قبول نہیں ہے یہ التماس

‎رونے لگو گے تم! جو بُرا یا بھلا کہوں

‎اِس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں؟

‎عُمریں قلیل اور ہوسِ منصبِ جلیل

‎اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل

‎ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل

‎ہاں اپنے ہمسِنوں میں تمہارا نہیں عدیل

‎لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے

‎جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے

‎ان ننھے ننھے ہاتھوں سے اُٹھے گا یہ علم

‎چھوٹے قدوں میں سب سے سِنوں میں سبھوں سے کم

‎نکلیں تنوں سے سبطِ نبیؑ کے قدم پہ دم

‎عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہی حشم

‎رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے

‎ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے

‎پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار

‎زیبا نہیں ہے جو وصفِ ضافی افتخار

‎جوہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار

‎دِکھلا دو آج حیدرؑ و جعفرؑ کی کارزار

‎تم کیوں کہو کہ لعل خدا کے ولی کے ہیں

‎فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علیؑ کے ہیں

‎کیا کچھ علم سے جعفر طیارؑ کا تھا نام

‎یہ بھی تھی اِک عطائے رسولِ فلک مقام

‎بگڑی لڑائیوں میں بن آئے اُنہیں سے کام

‎جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا رُوم و شام

‎بے جاں ہوئے تو نخلِ وِغا نے ثمر دیئے

‎ہاتھوں کے بدلے حق نے جواہر کے پر دیئے

‎لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب

‎بخشا علم رسولؐ خدا نے علیؑ کو تب

‎مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیرِ رب

‎در بند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب

‎اُکھڑا وہ یوں گراں تھا جو در سنگِ سخت سے

‎جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے

‎نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال

‎اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال

‎پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے کیوں سر کے بال

‎میں لُٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال

‎غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امامؑ کے

‎معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے

‎ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام

‎غصے کو آپ تھام لیں اے خواہرِ امامؑ

‎واللہ کیا مجال جو اب لیں علم کا نام

‎کُھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام

‎فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے

‎تب قدر ہوگی آپؑ کو جب ہم نہ ہوئیں گے

‎یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر

‎چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ پُر جگر

‎دیتے ہو اپنے مرنے کی پیارو مجھے خبر

‎ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر

‎کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بُری لگی

‎بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی

‎میر ببر علی انیس