ہم نے رسول اللہ صلی اللٰہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے

بات یہ ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللٰہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے اور ہماری وفاداریاں بنیادی طور پر صرف آنحضرت کے ساتھ ہی ہیں۔ مسلک، مکتبِ فکر، روایات، بزرگانِ دین ۔۔۔ ذاتی طور پر میں سب کے احترام کا قائل ہوں اور سب کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن جہاں کوئی بات یا کسی شخصیت کا کوئی فعل نبی پاک (ص) سے ٹکرا جائے تو اس بات یا اس شخصیت کے اس فعل کو چھوڑ دینے کے سوا کسی راستے پر جانے کا دل نہیں مانتا، خواہ وہ بات یا شخصیت میرے مسلک کی ضد ہو یا اس میں ہزار مصلحتیں ہوں۔

رسول اللہ (ص) نے جن سیاسی اقدار کی تعلیمات دی تھیں وہ اتنی ہی اہم ہیں جتنی عقائد یا عبادات سے متعلق رسول اللہ کی تعلیمات۔ شخصی و سیاسی آزادی، انصاف، قانون کی حکمرانی، قانون کی نظر میں برابری، مشاورت، دینی اخوت، بُتانِ رنگ و خون کو توڑنا ۔۔۔ یہ اقدار عقیدے کا جزو اور توحید و رسالت کا لازمی تقاضا ہیں۔ جس بھی تاریخی شخصیت نے ان اقدار کی سربلندی کے لیے کام کیا یا ان کے تحفظ کے لیے جنگ کی، فطری طور پر وفادارانِ رسولؐ کے دل کے قریب ہوگی۔

مجھے اس بات سے کبھی کوئی خاص دل چسپی نہیں رہی کہ کوئی کس صحابی کو کس صحابی سے افضل مانتا ہے، کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں، کس کا کیا مذہبی مقام و مرتبہ ہے۔ یہ سب عقائد کے مسائل ہیں اور عقیدہ نجی معاملہ ہے۔ ہاں مگر کس نے بیعت آزادانہ طور پر لی اور کس نے جبر اور مکاری سے، کس نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور کسی نے نسلی اور قبائلی تفاخرات ابھارے، کون مسلمانوں کے ساتھ مشورے سے حکومت چلاتا تھا اور کون آمرانہ طریقے سے، کس نے فلاحی ریاست بنائی اور کس کے دور میں اشرافیہ مضبوط ہوئی، کس کے دور میں عدلیہ آزاد تھی اور کون مطلق العنان تھا، کس کے دور میں حکمرانوں کا طرزِ زندگی سادہ تھا اور کس نے محل بنائے، کون عوام اور غریبوں کو اہمیت دیتا تھا اور کون خواص اور دولت مندوں کو ۔۔۔۔ تاریخ اور سیاسیاتِ اسلامیہ کے نظریاتی مسلمان اور اسلام پسند طالب علم کے طور پر یہی سوال میرے اس قابل ہیں کہ ان ہر بحث کی جائے۔ یہ ماضی سے متعلق سوال ہیں لیکن ان سے ہمارا مستقبل بھی وابستہ ہے۔ ان ہی سوالوں سے کے جوابات پر اسلامی نشاتہ ثانیہ کا بھی دارومدار ہے۔

ان سوالوں کے جواب تلاش کروں تو چار ہی حکمران میرے سیاسی ہیرو ہیں : سیدّنا ابوبکر صدیق رض، سیدّنا عمر فاروق رض، سیدّنا علی المرتضیٰ رض اور سیدّنا عمر بن عبدالعزیز رض۔ اور پھر تین افراد کی سیاست اور قربانیاں مجھے متاثر کرتی ہیں : سیدّنا حسن ع ، سیدّنا حسین ع اور سیدّنا زید بن علی ع۔

جو شخص بھی ان شخصیات کی سیاست کی بات کرے گا اور ان کے طرزِ سیاست کا دفاع کرے گا، ہم فطری طور پر اس کی طرف ہوں گے۔ وہ شخص اپنے آپ میں اہم نہیں ہے۔ اس کی ہمارے ان ہیروز کے حق میں کی گئی بات اہم ہے۔

میرا عقیدہ ہے کہ سیدّنا علی اور سیدّنا حسین رض اسی دستور کے تحفظ اور احیاء کے لیے لڑ رہے تھے جو سیدّنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدّنا عمر فاروق رض کا دستور تھا۔ ان کے مخالفین یا ان کے مقابل آنے والوں کے کفر و ایمان، جنت دوزخ، تقویٰ و مذہبی مقام ۔۔۔ یہ سب باتیں میرے لیے اس بحث میں نا صرف غیر متعلقہ ہیں بلکہ distraction سے زیادہ کچھ نہیں۔

اہلسنت اسلام کا مرکزی دھارا بھی ہیں اور تسنن ہمارا ذہنی گھر بھی ہے۔ سیدّنا صدیق رض و فاروق رض کی حقانیت اور سیاست پر تو الحمدللہ اہلسنت میں کوئی اعتراض کرنے والا نہیں۔ مسئلہ کچھ لوگوں کو سیدّنا علی رض اور سیدّنا حسین رض سے ہی ہوتا ہے اور ہم بھی ان کے حوالے سے ہی حساس رہتے ہیں۔ جو بھی علی اور حسین کی حقیقی سیاست کا دفاع کرے گا، ہم اس کے ساتھ ہوں گے، خواہ وہ دیوبندی ہو یا اہلحدیث ہو یا بریلوی ہو ۔۔۔ اس مخصوص مسئلے پر ہم اس کا ساتھ دیں گے۔

یہ بھی یاد رہنا چاہئیے کہ کسی کاز کا کوئی وکیل اپنی بشری کمزوریوں کے سبب کوئی بلنڈر کر جائے تو وہ اس کا بلنڈر ہوتا ہے، اس کاز کی حقانیت پر اس سے کوئی فرق نہیں آتا۔ مسلمانوں کی بے غیرتیوں اور کمزوریوں کو دیکھ کر آپ اسلام کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح مولا علی کا برحق ہونا بھی ان کے کسی وکیل کی عقل یا جرات پر منحصر نہیں ہے۔ دنیا میں نامِ علی لینے والا ایک انسان بھی نا بچے، علی تب بھی حق پر ہی رہیں گے۔

لہذا جہاں تک کوئی شخص ہمارے ہیروز کی ان ہیروز کی تعلیمات کے مطابق وکالت کرے گا، ہم اس کے ساتھ رہیں گے۔ جہاں وہ پیچھے ہٹ جائے یا بھٹک جائے، وہاں اس کی قسمت۔

وما علینا الا البلاغ

احمد الیاس