ہر قوم کی ایک تاریخ ہوتی ہے، ایک ماضی ہوتا ہے جس سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی تعمیر کی جاتی ہے، بہتر کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اگر وہ تاریخ قابلِ ستائش نہ ہو، قابلِ فخر نہ ہو تو اسے غلط، دروغ گوئی اور تعصب پہ مبنی کہہ کر رد نہیں کیا جانا چاہئیے۔ ردی کی ٹوکری کی نذر نہیں کر دینا چاہیے، نظریں نہیں چرانی چاہئیں یا گمراہ ہونے کے خدشے کے پیشںِ نظر”سکوت” کی منطق کاسہارا نہیں لینا چاہئیے۔
میں اپنی بات کرتا ہوں، بچپن سے ہی مطالعے کی عادت نے میرے اندر مذہب، سماج، خدا، نفسیات، کائنات، نظامِ الہی کے حوالے سے سوالات نے جنم لیا… خدا کیا ہے، یہ کائنات کیسے وجود میں آئی، جنت دوزخ، اجر و ثواب کی حقیقت کیا ہے… یہ سب سوچتے ہوئے دل کے کسی گوشے میں احساسِ جرم پیدا ہوتا تو سر جھٹک کر آنے والے خیالات کو باطل وگمراہ کہہ کے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتا۔ آگے چل کر اس رویے نے مجھے بہت مشکلات سے دوچار کیا، یہاں تک کہ تشکیک و یقین کے درمیان معلق ہو گیا
کوئی ایسا رہنماِ، پیرِ کامل، مردِ دانا میسر نہ ہوا جو میرے ذہن و دل میں برپا سوالات و خیالات کے بھنور میں پھنسی ناؤ کو پار لگاتا۔ خود ہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی تگ و دو نے نفسیاتی مسائل سے دو چار کر دیا۔ عذابِ آگہی بہت جان لیوا ہے، حساس ذہن پریشانیوں کا پیش خیمہ ہے اگر رہنمائی میسر نہ ہو۔ پھر اللہ نے انگلی تھامی اور میرا ایمان عقل و شعور، غور و فکر اور تدبر کی کسوٹی پہ پرکھا گیا۔ الحمدللہ…
خیر آمدم برسرِ مطلب کہ سوالات کو چھپایا جائے تو گمراہی، کفر و شرک کے خوف سے انسان اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ میرے جیسے کئی لوگوں کا مسئلہ ہے، اس لئے اپنے جیسے کم علم، تاریخ کے طالبعلم، سوال رساں ذہنوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بطورِ خاص عمار خان ناصر صاحب بشمول دوسرے اہلِ علم سے ملتمس ہوں کہ تاریخِ اسلام کے جھروکوں سے شریعتِ اسلامی کی روشنی میں چند سوالات کے جوابات مرحمت فرما دیں۔
“مکالمہ” پہ آپکی تحریر نظر سے گزری، جس سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ابوبکر رض ہو کہ عمر رض ان کے فیصلے یا کسی فعل کی توجیہہ شریعت سے کی جانا لازمی ہے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے افعال و کردار اور فیصلوں کو بھی شریعت کی کسوٹی پہ پرکھنا ضروری ہے، بالکل درست! تو یزید کی حکمرانی، اطاعت و بیعت کے لئیے شریعت سے کیا دلائل ہیں؟ ظالم، فاسق و فاجر کی زبردستی بیعت کے معاملے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ کیا ایسے شخص کی حکمرانی پہ خروج جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے امام عالی مقام حسین رض کو باغی قرار دیا تو اسطرح یہ فعل برحق ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حق و باطل کا کیا تصور ہے، امر بالمعروف نہی عن المنکر کا فلسفہ کہاں اپلائی ہونا چاہئیے؟ کیا حسین رضی اللہ کا اقدام اسی فلسفے کی صورت نہیں؟ ایک نقطہ نظر یہ بھی کہ امام عالی مقام رض خروج کے لیے نہیں نکلے تھے۔ یہ یوں بھی درست لگتا ہے کہ اگر خروج کا ارادہ ہوتا تو انکے ساتھ صرف خاندان کے افراد نہیں بلکہ جانثاران بھی ہوتے ہیں جن میں یقیناً صحابہ کرام بھی شامل ہوتے۔ جیسے جنگِ صفین اور جنگِ جمل میں مقتدر صحابہ شامل تھے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا کاحضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے جائز اور حقیقی خلیفہ راشد کے خلاف نکلنا کیسا اقدام ہے اور اسے آپ شریعت کی کسوٹی میں کیسے دیکھتے ہیں؟ اس کی توجیہہ و دلیل کیا دیں گے؟ “اجتہاد” کی غلطی یا پھر خروج؟
اپنی تحریر میں جسے آپ مداہنت رخصت و عافیت کا نام دے رہے ہیں، کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امام رض نے یزید کی حکمرانی کے خلاف تحریک چلائی ہی نہیں، وگرنہ صحابہ حضرت حسین رض کی دعوتِ پہ ضرور لبیک کہتے۔ یاد رہے کہ جنگِ صفین و جمل میں حصہ لینے والے صحابہ کرام خاصی تعداد میں حیات تھے..
جہاں تک طنزیہ انداز ميں دین غائب ہونے کی بات کی گئی ہے، اگر حضرت حسین رض کربلا میں جان نہ دیتے، یزید کی بیعت ہو جاتے، تب اس سے اسلام کے سیاسی نظام پہ سوال اٹھتا ہے، آیا اسلام میں ملوکیت کی”گنجائش ” ہے؟ اگر ملوکیت غیر اسلامی ہے تب امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کا, اقدام عین اسلامی قرار نہیں پانا چاہئیے…
آخر میں ضمنی سی بات، تاریخ میں ہے کہ یزید نے مدینتہ النبی صل اللہ علیہ وسلم پہ چڑھائی کی تھی، جس میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا… شہیدِ مظلوم عثمان غنی کے کردار کی روشنی میں کہ خلیفہ ہوتے ہوئے، جانثارانِ اسلام کے ہوتے ہوئے، اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف ہونے کے باوجود باغیوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی مبادا مدینتہ النبی صل اللہ علیہ السلام میں خون بہے اور جان دے دی مگر مدینے کی حرمت پہ آنچ نہیں آنے دی…. یزید کے مدینہ میں قتل و غارت کو شریعت کی روشنی میں کیسے دیکھتے ہیں….؟
واقعہ کربلا بارے عمار ناصر کی تحریر پیش خدمت ہے
“ سوال یہ نہیں کہ امام حسین رض کے اقدام کا جواز یا عدم جواز عمار ناصر نے یا کسی اور نے طے کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امام حسین رض کا اقدام فقہ وشریعت کی رو سے توجیہ کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں؟
اس ضمن میں اہل تشیع تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی توجیہ یا دلیل جواز کا تقاضا نہیں کرتا، کیونکہ ان کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے جس کا قول وفعل فی نفسہ حجت ہے۔ لیکن اہل سنت کا عقیدہ یہ نہیں۔ ان کے نزدیک تو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی اپنے کسی بھی فیصلے کے جواز کے لیے شریعت سے دلیل پیش کرنے کے پابند تھے اور اگر ان کا کوئی قول یا عمل اس کے منافی محسوس ہو تو اس کی توجیہ ضروری ہے۔ اہل تشیع کی طرف سے ان حضرات کے جتنے بھی فیصلوں یا آرا کو خلاف شریعت قرار دیا جاتا ہے، علمائے اہل سنت نے ہمیشہ شرعی دلائل ہی کی روشنی میں ان کی توجیہ یا جواز ثابت کیا ہے۔ کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ فلاں اور فلاں کون ہوتا ہے ان کے قول یا عمل پر سوال اٹھانے والا؟ سو ، سو باتوں کی ایک ہی بات ہے کہ ہم کسی بھی امام کو معصوم نہیں مانتے اور ہر ہر امام کا ہر ہر قول یا عمل اپنے جواز یا گنجائش کے لیے شرعی توجیہ واستدلال کا محتاج ہوتا ہے۔
ہاں، اس توجیہ میں نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ حضرات امام حسین رض کے اقدام کو شرعی ودینی لحاظ سے مطلوب ترین آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اچھی بات ہے، وہ اس کے حق میں دلائل دیں۔ میرا نقطہ نظر یہ نہیں ہے۔ میں اسے ’’گنجائش‘‘ ہی کے درجے کی چیز سمجھتا ہوں، اس لیے کہ میرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس وقت صحابہ کا سواد اعظم تو مداہنت اور رخصت اور عافیت میں گوشہ گیر ہو گیا اور اکیلے امام حسین رض وہ فرد تھے جنھوں نے دین وشریعت کی حفاظت کا علم اٹھایا اور اگر وہ نہ اٹھاتے تو دین، دنیا سے غائب ہو جاتا۔
بہرحال یہ میرا نقطہ نظر ہے۔ اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن حضرت امام کے قول یا عمل کو سوال یا توجیہ سے بالاتر قرار دینے کی جسارت سوچ سمجھ کر ہی کرنی چاہیے۔”