سترہ رمضان ۔۔۔۔ یومِ وفات, ام المومنین سیدّہ عائشہ رضی اللہ عنہا
(ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حیدری پروٹوکول اور اہلبیتِ رسول اور خانوادہِ صدیقی کے تعلقات کا تسلسل)
جنگِ جمل کے دل خراش واقعے کے بعد جب امیر المومنین مولا علی المرتضیٰ کرم اللٰہ وجہہ الکریم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو عراق سے واپس ان کے وطن حجاز رخصت کیا تو ان کے ساتھ پہرے داروں کی ایک جماعت بھیجی جس کی قیادت مولا علی کے بااعتماد قریبی ساتھی محمد بن ابوبکر رضی اللٰہ عنہ کررہے تھے۔ (محمد بن ابوبکر اماں عائشہ کے بھائی تھے لیکن ان کی پرورش ابوبکر صدیق رضی اللٰہ عنہ کی وفات کے بعد مولا علی نے کی تھی۔) بصرہ کی چالیس معزز خواتین کو بھی اماں عائشہ کی ہمراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔
مولا علی نے اپنے خاندان کی طرف سے ہدیہ کے طور پر بارہ ہزار درہم کی رقم پیش کی جسے بنو ہاشم کے ثروت مند جوان اور مولا علی کے بھتیجے اور داماد، شوہرِ زینب بنت علی عبداللٰہ بن جعفر طیار رضی اللٰہ عنہ نے کم سمجھا اور اپنی طرف سے امّاں کی خدمت میں مزید تحائف پیش کیے۔ یہ رقم اور تحائف اماں عائشہ نے حجاز کے ناداروں میں تقسیم کردئیے۔
جس دن اماں عائشہ رخصت ہوئیں تو مولا علی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچے اور ان کے احترام میں شہر سے باہر میلوں تک ان کے ساتھ گئے اور وہ پورا دن (شنبہ، یکم رجب ۳۶ ہجری) ام المومنین کی خدمت میں گزارا۔
حضرت عائشہ نے اس موقع پر مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بچو ! ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کا گلہ شکوہ شکایت نہ کرے۔ میرے اور علی کے درمیان پچھلے دنوں اگر کوئی غلط فہمی یا شکایت رہی تھے تو صرف اس قدر جتنی ایک خاتون اور اس کے دیوروں کے درمیان کبھی کبھی ہوجایا کرتی ہے۔ میری عزیزانہ شکایت کے باوجود علی صلحائے اُمت کی پہلی صف میں ہیں اور تم پر ان کا احترام واجب ہے۔
اس کے جواب میں مولا علی خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ واللٰہ ام المومنین نے سچ کہا، ہمارے اور ان کے درمیان اتنی ہی بات تھی۔ وہ دنیا اور آخرت میں تمہارے نبی کی زوجہ اور تمہاری ماں ہیں۔
(البدایہ والنہایہ صفحہ ۲۴۶)
جیسا کہ ہم نے بتایا کہ سیدّنا ابوبکر صدیق رض کے فرزند محمد بن ابوبکر رض کی پرورش تین برس کی عمر سے ہی مولا علی ع نے فرمائی تھی کیونکہ محمد بن ابوبکر کی والدہ, صحابیہِ رسول اسماء بنتِ عمیس رض سے مولا علی نے شادی کرلی تھی۔ دراصل اسماء بنتِ عمیس کی شادی سب سے پہلے مولا علی کے بڑے بھائی جعفرِ طیار رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ جنگِ موتہ میں جعفر کی شہادت کے بعد اسماء نے ابوبکرصدیق رض سے شادی کی جس سے محمد بن ابوبکر کی ولادت ہوئی۔ سیدّنا ابوبکر صدیق رض کی وفات کے بعد آپ مولا علی کے عقد میں آئیں۔ مولا نے نا صرف اپنے یتیم بھتیجوں کو بیٹا بنا کر پالا بلکہ محمد بن ابوبکر بھی خانوادہِ علی کا لازمی جزو اور حسنین کریمین ع کے بھائی ہی سمجھے جانے لگے۔
محمد بن ابوبکر سے اس قدر وفاداری رکھتے تھے کہ جنگِ جمل میں مولا علی کے لیے اپنی بہن کے مقابل آگئے, اسی لیے اس جنگ کو بہن بھائی کی جنگ بھی کہتے ہیں۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان ہی محمد بن ابوبکر رض کے فرزند قاسم بن محمد بن ابوبکر رح جو اسلامی تاریخ ایک بڑے عالم اور امام ہیں, محمد بن ابوبکر رض کی افسوسناک شہادت کے بعد حضرت عائشہ کی کفالت اور تربیت میں آگئے اور اہلبیتِ رسول ص نے کوئی اعتراض نا کیا کیونکہ جنگِ جمل میں دلوں کے اندر جو کدورت پیدا ہوئی تھی, وہ اللہ کے حکم سے دور ہوچکی تھی۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے موقع پر قاسم بن محمد بن ابوبکر اور عبداللہ بن محمد بن ابوبکر نے پھپھی کو قبر میں اتارا۔
اماں عائشہ کے پروردہ حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر, امام جعفر صادق علیہ السلام کے نانا بھی ہیں۔ ان کی بیٹی ام فروہ بنت قاسم رضی اللہ عنہا کی شادی امام علی زین العابدین بن حسین رض کے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام سے ہوئی اور ام فروہ الصدیقیہ کے بطن سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
ان دو خاندانوں کی اس قربت اور باہمی احترام میں یہ پیغام پنہاں ہے کہ اہل تشیع کو اختلافات برقرار رکھتے ہوئے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کا احترام کرنا چاہیے اور اہل سنت کو حضرت محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عزت میں کمی نہیں کرنی چاہئیے۔
احمد الیاس