یوم مزدور

میں فکری طور پر “بو ذری” ہوں اور اسلام کے معاشی نظام میں شاہ ولی اللہ، شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی فکر سے متاثر

مزدور کی حالت دیکھ کر دل پسیج جانا، ان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کڑھنا اور ہر موقع پر ان کی رعایت کی کوشش کرنا

لیکن

زندگی بھر کا تجربہ بہت تلخ ہے

مثلاً مجھے اس بات پر سخت کوفت ہوتی کہ لوگ مزدور کو پوری اجرت نہیں دیتے اور کام مکمل ہونے تک ٹالتے رہتے ہیں

اس وجہ سے جب بھی میں نے کسی کو پیشگی اجرت دے کر کام کا وقت طے کیا، میرا کام کبھی نہیں ہوا اور نئے سرے سے دوسرے مزدور سے کروانا پڑا.

ایک بندہ جو میرے پاس ڈرائیور تھا، بہت غریب، میں نے سوچا، اس کے مستقل روزگار کے لئے اس کو گاڑی لے کر دی جائے تاکہ اگر یہ ملازمت نہ بھی کرے تو اس کا گزارا ہوتا رہے

اس نیکی میں مجھے لگ بھگ ڈیڑھ دو لاکھ کا نقصان ہوا اور ڈرائیور نے جو دھوکا دیا اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.

اس کا نقصان بعد میں آنے والے ڈرائیورز کو لا شعوری طور پر ہوتا رہا

دو بچوں کے والد میرے پاس آئے کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر گزارا کرتے ہیں، بہت مشکل حالات ہیں

درس نظامی کے فضلاء تھے

میں نے انہیں ایم ایس میں داخلہ دیا. ان کی فیس، لباس، کتب وغیرہ کا انتظام کرتا رہا

وہ آخری امتحان میں غیر حاضر تھے

بعد میں ایک دن میرے پاس آئے تو پوچھنے پر کہنے لگے

“ایم ایس پر کون پیشاب کرتا ہے، ہمیں اور مصروفیات تھیں.”

اگرچہ زندگی کے سبھی تجربات ناکام نہیں رہے

لیکن ان تجربات کی ناکامی نے کسی کی مجبوری دیکھ کر نیکی کرنے کے جذبے کی بے پناہی کو روک دیا.

اقبال نے اسی کو کہا تھا

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا

طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

طفیل ہاشمی