——–
1۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﻐﺮﺽ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺟﮕﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﭼﻨﺎﭼﮧ کسی بھی فرد کی ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﯽ ظاہری ﮨﺌﯿﺖ ﺍﻭﺭ اصل ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻓﯿﺼﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﭘﺮﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ
ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﻏﻢ، ﺧﻮﺷﯽ، ﺭﺍﺣﺖ ، ﺍﺑﺘﻼﺀ، ﺣﺼﻮﻝِ ﻧﻌﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﻘﻮﻁﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﺘﺮﮎ ﮐﻮﺭﺱ ﺁﺅﭦ ﻻﺋﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ مہلتِ زیست کی ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ گاہ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺍﺳﯽ ﮐﺎ ﭘﺮﭼﮧ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﻮﺍﻻﺕ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺎﻧﭻ کا معیار ﺍﻧﮩﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﮔﮭﻮمتا ﮨﮯ، اور ان کے حوالہ سے ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﻭﯾﮯ : ﺳﭻ، ﺟﮭﻮﭦ، ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭﯼ، ﺑﮯ ﺍﯾﻤﺎﻧﯽ، ﺳﺨﺎﻭﺕ، ﺑﺨﻞ، ﺍﻧﺼﺎﻑ، ﻇﻠﻢ، ﻟﻮﭦ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺎﮒ ﮨﻤﺎﺭﮮ نمبروں ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
2 ۔ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﺧﺎﻟﺼﺘﺎً ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ و منشا ﺳﮯ پہلے سے ﻃﮯشدہ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، مثلاً، ﻭﻗﺖ ﻭ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺕ، ﺭﻧﮓ، ﻧﺴﻞ، ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ اپنی ﮐﻮﺋﯽ مرضی یا عمل ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻨﺎﭼﮧ ﺍﺱ سیکشن ﮐﺎ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﺘﺎﺏ ﺳﮯ بھی ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﻧﮩﯿﮟ۔ اسی وجہ سے ان باتوں میں تفاخر کی شدید حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
3 ۔ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﺎ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﻭﺍﻻ ﺣﺼﮧ مختلف ﺁﭘﺸﻨﺰ پر مشتمل ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺩﻗﯿﻖ نیٹ ورک ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ اپنی پوری زندگی میں مرحلہ وار ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﭘﯿﺮﺍﮈﺍﺋﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ کے ساتھ کہیں نا کہیں منسلک ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ مربوط بھی۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺁﭘﺮﯾﺸﻨﻞ ﯾﺎ ﺳﺎﮐﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﺍﺭﻭﻣﺪﺍﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ “key” ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﮍﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کے سامنے کسی میدان میں دو راستے ہیں تو الف کے انتخاب کی صورت معاملات کیسے آگے بڑھیں گے اور ب پر عمل کرنے سے کیا عواقب ہوں گے اور پھر ان سے جڑے تہ در تہ آپشنز اور ان کے نتائج۔
4 ۔ فرد ﺍﻭﺭ اقوام ﮐﯽ سطح پر بھی ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻟﻤﭧ ﻃﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ساتھ ہی “ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺍﯾﮕﺰﭦ ” کی گنجائش بھی ہمہ۔وقت موجود رہتی ہے۔ یہ آپشن ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﺣﺮﮐﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻓﺮﺩ ﯾﺎ ﻗﻮﻡ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮨﺘﮭﮯ ﺳﮯ ﺍﮐﮭﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺱ ﺭﻭﯾﮯ ﭘﺮ ﺍﺗﺮﺍﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻨﭩﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ۔ ان رویوں کی تفصیلات اللہ تعالٰی کے نازل کردہ صحائف میں امثال کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔
ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻧﮑﺘﮧ ﺗﺼﺤﯿﺢ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺗﺼﺤﯿﺢ کی حد ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﮩﻠﺖ ﮐﺎ ﭘﮭﭩﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
5 ۔ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺍﻣﻞ ﭘﺮ ﺣﺎﻭﯼ ﮨﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﭘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ہو سکتا ہے اور کیا ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔ ﺍس ﻟﯿﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ کی فکر و عمل کی آزادی میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﯿﻼﻥ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺳﮯ
ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺧﺎﺹ ﻓﺮﺩ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺁﭘﺸﻦ ﭘﯿﺮﺍﮈﺍﺋﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺁﭘﺸﻦ ﮐﻮ ﮐﻠﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺭﺍﺩﮮ، ﻧﯿﺖ، ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮐﺎ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﯽ فکر و عمل سے برآمد ہونے ﻧﺘﯿﺠﮯ سے آگاہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جانتا ہے کہ اس کے متوازی یا مخالف اور کتنے افرد کی تقدیر چل رہی ہیں۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻤﺎﻣﺘﺮ ﮐﻮﺷﺶ ﺍﻭﺭ ﭘﻼﻧﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﺎوجود، ﺩﺭﺍﺻﻞ آگے ﮨﻮ ﮔﺎ ﮐﯿﺎ۔ ﺗﺎﮨﻢﺍﺳﮯ ﯾﮧ واضح ﻃﻮﺭ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ معاملہ کا انحصار نتائج پر نہیں بلکہ کوشش پر ہے۔ نیز یہ کہ وہ کون سے ﻣﯿﻼﻧﺎﺕ اور افعال ہیں جو ﺟﺞ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍس حوالہ سے ﮐﻮن ﺴﮯ ﺭویے ﻣﺜﺒﺖ ﮔﻨﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻧﺴﮯ ﻣﻨﻔﯽ۔
ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﯾﮩﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮐﺎ ﺍﺻﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﻣﺸﻖ
ﮨﮯ، یعنی ۔۔۔ مطلوب اوصاف و اخلاق اور ان پر کاربند رہنے کی جہدِ مسلسل۔ یہی توکل بھی ہے۔ اپنی پوری اور بہترین کوشش، اور پھر اس بات پر قناعت کہ نتیجہ خیز قوت اس کا عمل نہیں بلکہ خدا کی مرضی ہے۔ اور خدا محسنین (صدق دلی سے بہترین کام کرنے والے) کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش