احمدیوں کے مسئلے کا ایک پہلو مذہبی واعتقادی ہے

احمدیوں کے مسئلے کا ایک پہلو مذہبی واعتقادی ہے، وہ اپنی جگہ ہے۔ لیکن ہمارے سیاق میں اب اس کا سیاسی پہلو زیادہ غالب ہے اور اس کا سرا گروہی مذہبی نفسیات سے جا ملتا ہے۔ ایم اے کے نصاب میں ایک ناول شامل تھا جس کا نام اب ذہن میں نہیں۔ اس میں ایک لڑکی کا کردار مرکزی ہے جو بہت حساس مزاج کی ہے۔ جب بھی گھر والوں سے ڈانٹ پڑتی ہے یا کوئی ناگوار تجربہ ہوتا ہے تو وہ اپنا غصہ اپنے کمرے میں رکھی ہوئی ایک گڑیا پر نکالتی ہے۔ اسے نوچتی ہے، مارتی ہے اور اٹھا کر پٹختی ہے جس سے اس کا غصہ اور رنج کم ہو جاتا ہے۔ یہ ہر مغلوب الغضب انسان کی ایک نفسیاتی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں احمدی کمیونٹی بنیادی طور پر شدت پسند اور زیادہ حساس مذہبی طبقوں کے لیے اسی گڑیا کا کام دیتی ہے۔ دنیا میں اور ہمارے ماحول میں ایسے واقعات مسلسل پیش آتے رہتے ہیں جن پر فطری طور پر مذہبی ذہن غصہ اور رنج محسوس کرتا ہے۔ نفرت اور غصے کے اظہار کے لیے کوئی ایسا ہدف درکار ہوتا ہے جو کمزور ہو، رسائی میں ہو اور اس کے ساتھ نفرت کی بھی اپنی جگہ کوئی وجہ موجود ہو۔ احمدی کمیونٹی یہ ساری شرائط پوری کرتی ہے، اس لیے شدت پسند مذہبی گروہ اور افراد ماحول سے جمع ہونے والے غصے اور رنج کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ کبھی کسی احمدی کو قتل کر دیا، کسی کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا، کہیں انھیں اپنی عبادت کرنے سے روک دیا، وغیرہ۔ اس سے غصے کی بھی تسکین ہو جاتی ہے، انکار ختم نبوت کی وجہ سے جو نفرت مسلمانوں کے دلوں میں ہے، اس کا بھی اظہار ہو جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں مذہبی اسپیس کے مسلسل محدود تر ہونے سے جو خوف پیدا ہوتا ہے، اس میں بھی وقتی طور پر تخفیف ہو جاتی ہے کہ ہاں، ہمارا زور بھی کہیں چلتا ہے۔

ذمہ دار مذہبی راہ نما ان رویوں اور واقعات پر ناپسندیدگی تو ضرور رکھتے ہیں، لیکن اس کو کسی اچھے اور مثبت مذہبی جذبے کا نتیجہ سمجھ کر زیادہ سنجیدگی سے اس کی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انھیں اپنے تجزیے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی مثبت اور قابل تحسین جذبہ نہیں ہے، ایک بہت مہلک نفسیاتی بیماری کا مظہر ہے۔ اب بھی ذمہ دار حضرات اس کی اصلاح کے لیے شاید کچھ کر سکتے ہیں، لیکن اس کی مہلت مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔

وما علینا الا البلاغ

عمار خان ناصر