اُمت اور خاندان

واقعہ کربلا خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئے دو اکائیوں یا یوں کہئیے کہ دو معاشرتی اور روحانی اداروں کے گرد گھومتا ہے : اُمت اور خاندان۔ درحقیقت زمین کی اکائیوں میں سے مومن کی زندگی میں اہمیت ہی ان دو اکائیوں کی ہے ۔۔۔ باقی سب مصنوعی ہے۔

امامِ عالی مقام اُمت کی اصلاح اور نجات کے لیے ریگ زار میں کھڑے ہیں لیکن ان کے ساتھ ان کا خاندان ہے ۔۔۔ اماں فضہ سے شہزادی سکینہ تک، اور عباسِ علمدار سے علی اصغر تک، سیدّہ زینب سے بی بی اُمِ لیلیٰ و رباب تک، عون و محمد سے شہزادہ قاسم اور شہزادہ قاسم کی ماں تک ۔۔۔۔ امام کے اکثر رشتے کسی نا کسی شکل میں موجود ہیں۔ یہ اتنا بھرپور خاندان اپنے اتنے رنگین رشتوں کے ساتھ آخر اس صحرا میں کیا کررہا ہے جہاں حق و باطل نبرد آزما ہیں ؟ اس خوں ریز معرکے میں اس خاندان کے یہاں ہونے سے کھنڈت پڑ رہی ہے یا اس جنگ کو کوئی نئی معنویت عطاء ہورہی ہے ؟

ایک جنگ مہابھارت کی بھی ہے جہاں ہند کے دو جلیل القدر خاندان نبرد آزما ہیں لیکن وہاں ارجن اور اس کے چار بھائیوں کی کوئی بہن نہیں، بیٹی نہیں، بھتیجی نہیں ۔۔۔ صرف بھائی ہیں۔ کہنے والے کہیں گے کہ چار بھائیوں کے ہوتے بہن کی کیا کمی ؟ لیکن امام حسین علیہ السلام کے بھی چار بھائی عباس بن علی، عثمان بن علی، جعفر بن علی اور عبداللہ بن علی علیہم السلام میدانِ کربلا میں موجود تھے مگر زینب سلام اللہ علیہا و ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی موجودگی سے واقعہ کربلا کو جو معنویت ملی وہ سو عباس، سو عثمان، سو جعفر اور سو عبداللہ آجانے سے بھی نا ملتی۔

بتایا یہ گیا کہ ایک رشتے کی افراط سے کسی رشتے کے گم ہوجانے کی تلافی نہیں ہوجاتی۔ زندگی میں ہر رشتے کی اپنی اہمیت، اپنا مقام، اپنی معنویت ہوتی ہے۔

احمد الیاس