معاصر برصغیر میں صوفیانہ فکر کے چار بڑے مخالفین ہیں۔
١۔علامہ غلام احمد پرویز
٢۔علامہ جاوید احمد غامدی
٤۔راشد شاز
جبکہ چار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے تصوف کے لبادے میں لوگوں پر شریعت مسلط کرنے کی کوشش کی:
١۔مولانا احمد رضا خان بریلوی
٢۔مولانا اشرف علی تھانوی
٣۔علامہ اقبال
٤۔مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودی
موخر الذکر چار حضرات نے تصوف کو غیر فطری طورپر ”اسلامی تصوف“ اور ”عجمی تصوف“ کے خانوں میں بانٹ کر اور پھر ”اسلامی تصوف“ کی حمایت اور ”عجمی تصوف“ کی مخالفت کرکے تصوف کی روایت کو شریعت کے ماتحت کرکے اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کی ۔حالانکہ یہ چاروں حضرات خوب جانتے تھے کہ فلسفہ کی طرح تصوف کی بھی کوٸ سرحد نہیں ہوتی۔تصوف اُس وقت بھی موجود تھا جب اسلامی شریعت ابھی نازل ہی نہیں ہوٸ تھی۔تصوف مذاہب عالم کی روایت میں ایک عالمگیر مشرب ہے جس کی اپنی اساسات ,اپنے نتاٸج اور اپنے پیمانے ہیں۔ان سب حضرات نے طریقت کو شریعت کے پیمانے پر جانچنے کادرس دے کر ا س کا گلہ دبانے کی کوشش کی۔ابن عربی , رومی,بھلے شاہ,شاہ عبدالطیف بھٹاٸ ,سرمد اور داراشکوہ کو توچھوڑیۓ, یہ لوگ شاہ ولی اللہ دہلوی کے قدرے محتاط تصوف کی باریکیوں کو بھی قبول کرنے سے عملاََ گریزاں رہے۔۔۔۔
تدبر قرآن کے مصنف مولانا امین احسن اصلاحی کا رویہ ان حضرات سے زیادہ بہتر رہا کہ انہوں نے تصوف کی اعلانیہ مخالفت کی اور اسے ”اسلامی لباس“ پہنانے کی مصنوعی کوشش سے گریز کی روش اپناٸ۔دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد نے اسلامی شریعت کے پیراڈاٸم سے بالاتر ہوکر اپنی فکر کو بڑی حد تک تصوف کے رنگ میں رنگ لیا جس کی جتنی بھی تعریف کی جاۓ کم ہے۔علامہ اقبال کی بنسبت پشتو کے رومانیت پسند و جمال پرست صوفی و فلسفی شاعر غنی خان اپنی شاعری میں تصوف کی حقیقی روح کے زیادہ قریب رہے۔اس نے حقیقتِ اولیٰ,بقاۓ دوام ,خیال وجمال,عشق و محبت,غربت وافلاس اوراسی طرح کےدیگر انسانی المیوں سے متعلق بنیادی سوالات اٹھاۓ اور فلسفیانہ و صوفیانہ تناظرمیں ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔اپنی تلاش میں وہ منصور اور عمرخیام اور سرمد اور پیر روخان اور ٹیگور کی طرح عرش کی بلندیوں تک بھی گیۓ اور فرش کی تہہ تک بھی پہنچے۔۔۔
تصوف کے اعلانیہ مخالفین میں سے علامہ غلام احمد پرویز صاحب جدیدیت سے حد درجہ متاثر رہے اور دین کی ایسی تفہیم کی جو اسلام کی روایت کےلیۓ بہت اجنبی ہے۔اسلیۓ اس کاتوڑ چنداں مشکل نہیں ہے۔غامدی صاحب کے ہاں سطحیت غالب ہے۔انہیں اپنے Priories اور consequences کا خود بھی ادراک نہیں۔سیاست میں عمران خان کی طرح مذہب میں غامدی صاحب گاہے ایسے مواقف اپناتے ہیں جو self-contradictory ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر میزان میں لکھتے ہیں ”قرآن سے باہر کی کسی چیز کو وحی نہ سمجھا جاۓ“ جبکہ حسن الیاس سے حالیہ گفتگو میں فرماتے ہیں کہ ”وحی قرآن سے باہر بھی موجود ہے۔سنت اعمال بھی وحی ہیں۔خدا نے احکام کے ساتھ اعمال بھی وحی کیۓ ہیں۔اُن منزل اعمال کو جو کہ گنتی میں چند ہی ہیں سنت کہاجاتا ہے“۔اسی طرح حدیث کے بارے میں ان کا اصولی موقف ہے کہ ”حدیث سے دین میں کسی نٸ بات کا اضافہ نہیں ہوتا“,لیکن ساتھ ہی تصوف پر تنقید کرتے ہوۓ کشف کے وقوع کے امکان کی نفی کرنے کےلیۓ انہیں جب قرآن وسنت سے کوٸ دلیل نہ ملی تو انہوں نے حدیث سے ہی استدلال کرلیا کہ کمالاتِ نبوت میں صرف مبشرات باقی ہیں اور وہ سچے خواب ہیں۔قرآن وسنت کو چھوڑ کر حدیث سے اس قسم کا استدلال غامدی صاحب کے اصول ہاۓ حدیث سے براہ راست متصادم ہے۔۔۔
راشد شاز نہ روایتی علوم کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوٸ منفرد منہج ہے۔ان کی تحریریں ادیبانہ اورصحافیانہ نوعیت کی ہیں جو زیادہ تر مولانا وحید الدین خان,جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر خضریاسین سے متاثر ہوکر لکھی گٸ ہیں۔اوریجنیلیٹی نہ ہونے کے باعث ان کی فکر تصوف کے لیۓ کوٸ بڑا چیلینج نہیں ہے۔۔۔
تصوف کےلیۓ جو فکر سب سے زیادہ چینلجنگ ہے وہ ڈاکٹر خضریاسین کی فکر ہے۔ڈاکٹر خضریاسین دینی مدرسے سے فارغ التحصیل سندیافتہ عالم دین ہونے کےساتھ ساتھ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کیۓ ہوۓ ہیں۔انہوں نےقرآن وسنت کو بنیاد بناکر مسلمانوں کی پوری فکری روایت کو چیلنج کررکھاہوا ہے۔علم تفسیر,علم حدیث,علم فقہ,علم قراءات اور علم کلام کی طرح تصوف کی روایت بھی ان کی تنقیدکی زد میں رہتی ہے۔اُن کاموقف ہے ان تمام مذکورہ بالا علوم کی اساسات ہی قرآن وسنت سے متصادم ہیں۔علم کلام کی اساسات پر حال ہی میں ان کی زاہد مغل جیسے سنی علم کلام کے نامور ماہر سے فکری کشمکش رہی۔اس ضمن میں زاہد مغل کی طرف سے تو اب خاموشی چھاگٸ ہے لیکن خضریاسین صاحب اب تک علم کلام کی اساسات کو ہی غیر اسلامی ثابت کرنے کےلیۓ اٹھارہ قسطیں لکھ چکے ہیں۔کٸ مزید قسطیں ابھی آنےوالی ہیں۔فقہ کی اساسات پر ان کی تنقید کا جواب دینے کےلیۓ لوگ فقہ وقانون کے نامور ماہر ڈاکٹر محمد مشتاق کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن وہ بہ وجوہ ابھی ڈاکٹر خضریاسین کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں,ہاں البتہ اپنی فیس بک وال پر انہوں نے دو سال قبل اعلان کررکھاتھا کہ جوشخص خضریاسین کویہاں مینشن کرےگا اسے بلاک کردیا جاۓ گا۔ڈاکٹر محمدمشتاق اور دیگر ماہرین فقہ وقانون اسلامی کی خاموشی سے لوگوں میں منفی پیغام جارہا ہے۔اسی کو دیکھتے ہوۓمیں نے فیصلہ کیا کہ تصوف پر ڈاکٹر خضریاسین صاحب کی تنقید کا بروقت جواب دیناچاہیۓ۔تصوف پران کے تمام اعتراضات کے تسلی بخش جوابات میرے پاس موجودتھے۔میں نے دوہزار اکیس میں لاہور میں اقبال اکیڈمی میں اُن سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی اور تصوف بارے اپنا موقف ان کے سامنے تنقید کےلیۓ رکھا۔انہوں نے اعتراضات اٹھاۓ اور میں نے جوابات دیۓ۔ان کے کچھ تلامذہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔آخرمیں ڈاکٹر خضریاسین صاحب نے مجھے کہا کہ ”آپ کے تصورِ تصوف پر میرا کوٸ خاص اعتراض نہیں“۔اس ملاقات کے بعد بھی ایک عرصےتک میں تصوف کے بارے میں اپنی تحریرات کوسوشل میڈیاپر شیٸرکرنے سے پہلے انہیں بھیجتا رہا اور ان سے درخواست کرتا رہاکہ وہ اس پر اپنے منہج فکر کی رو سے اعترضات اٹھاٸیں ۔وہ اعتراضات اٹھاتے تھے اور میں جواب دیتاتھا۔آخر میں انہوں نے فون پر مجھے کلین چٹ دے دی اور کہاکہ ”آپ کے تصورتصوف کومیں قبول تو نہیں کرتا لیکن اس کو رد کرنے کےلیۓ بھی میرے پاس کوٸ جواز موجود نہیں ہے۔“۔مزید تاکید کی کہ ”آپ مجھ سے مت گھبراٸیں“۔ایک ایسا شخص جوکہ مسلمانوں کی پوری فکری روایت کی اساسات کو خلاف اسلام قرار دیکر اسے رد کررہا ہے کی زبان سے اپنےتصور تصوف کے متلعق کلین چٹ حاصل کرنے کے بعد میں نےقدرے سُکھ کا سانس لیا۔خوشی اس بات کی ہے کہ ڈاکٹر خضریاسین صاحب کی فکر سے بالکل مختلف فکر رکھنے کے باوجود میں نے خود کو اور اپنی فکر کو اُن کی تنقید سے بچا لیاہے۔اب میں اور میرا تصوف محفوظ مقام پر منتقل ہوگیۓ ہیں جہاں ہم ڈاکٹر خضریاسین کی گولہ باری سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔رہے علم تفسیر ,علم حدیث,علم قراءات ,علم فقہ اور علم کلام تو یہ سب علماۓ ظاہر کے پیداکردہ علوم ہیں۔جو زیادہ تر شریعت سے ہی متعلق ہیں,ان کا دفاع بھی علماۓ ظاہر کےذمے ہے ۔صوفیاء نے ان علوم کو کوٸ خاص اہمیت کبھی نہیں دی۔بلکہ صوفیاء کی ان علوم کے علمبرداروں سےسے ہمیشہ کشمکش رہی ہے جوکہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔صوفیاء کی طرح ڈاکٹرخضریاسین صاحب بھی چونکہ ان علوم کے علمبرداروں سے نبرد آزما ہیں تو ہم خاکپاۓ فقیراں یہ آس لگاۓ بیٹھے ہیں کہ ڈاکٹرخضریاسین صاحب کا علماۓ ظاہر کے پیداکردہ علوم اور استدلال کو کھوکھلا ثابت کرنے کا عمل برصغیر میں صوفیانہ فکر کے احیاء کےلیۓ ماحول سازگار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔بقولِ صوفی شاعرامیر خسرو ع
کافَر عِشقَم، مُسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست
(میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے (کافروں کی طرح) زُنار کی حاجت بھی نہیں ہے۔)
شاد باش اے دل کہ فَردَا برسَرِ بازارِ عشق
مُژدۂ قتل است گرچہ وعدۂ دیدار نیست
(اے دل تو خوش ہوجا کہ کل عشق کے بازار میں، قتل کی خوش خبری ہے اگرچہ دیدار کا وعدہ پھر بھی نہیں ہے۔)
خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد
آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست
(لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے لوگوں کی کوٸ پرواہ نہیں۔)
گل رحمان ہمدرد