جاوید احمد غامدی صاحب، ایک تجزیہ

جاوید احمد غامدی صاحب کی کتب و مضامین کے مطالعے اور ان کو سننے کے ساتھ ساتھ ان کی فکر سے متاثر حضرات سے مختلف مواقع پر گفتگو کے بعد ان کی فکر کے بارے میں مجموعی طور پر جو طائرانہ تجزیہ ھے، وہ مختصرا عرض کیا جاتا ھے:

1- غامدی صاحب کی اس خوبی سے انکار نھیں کیا جاسکتا کہ وہ مجموعی طور پر اردو ادب وانشا میں مضبوط قلم کے مالک اور ایک بھترین ادیب ھیں، ان کی تحریر اور گفتگو سے بخوبی اس کا اندازہ بھی ھوتا ھے.

2- جاوید احمد غامدی صاحب کا اسلوب وطریقہ قدیم اور عام اسلوب سے ھٹ کر ھے، بالفاظ دیگر یوں کھا جاسکتا ھے کہ وہ اپنی رائے کا اظھار مخصوص قسم کے ادبی اور صحافتی اسلوب میں کرتے ھیں، جسے الفاظ کا ھیر پھیر بھی کھا جاسکتا ھے، اس لیے ان کی فکر کا مطالعہ کرنے کے لیے دین و شریعت، قرآن و حدیث کے ساتھ اردو ادب و انشا اور فن تعبیر (منطقی اصطلاحات: صغری، کبری، نتیجہ، قیاس) سے گہری واقفیت بھی ضروری ھے، تاکہ الفاظ کے الٹ پھیر اور رد و بدل سے اس جزئی مسئلے کی ماہیت اور اس میں دَرآمدہ تغیر کو پھچانا جاسکے، اس لیے مذکورہ خوبی کی بنا پر غامدی صاحب کی فکر پر دو جمع دو چار کی طرح فوری اظھار رائے ہر فرد کے لیے ممکن نھیں.

3 – غامدی صاحب مصادرِ دین کے عنوانات میں اظھار رائے کے بجائے دینی مآخذ کی جزئیات اور تعبیرات میں بھت سے مقامات پر منفرد رائے رکھتے ھیں، اس لیے اگر دین کے مآخذ کو عنوان بناکر بات کی جائے تو وہ صحیح نھیں ھوگی، لیکن اگر اس کی گہرائی میں غور کیا جائے تو وھاں تعبیری تنوع کے سھارے غامدی صاحب ایک منفرد اور علیحدہ مقام پر کھڑے نظر آئیں گے.

4- فروعی مسائل میں غامدی صاحب امت کے لیے یسر اور آسانی کو اس حد تک ترجیح دیتے ھیں کہ بسا اوقات اصول بھی خطرے میں آتے دکھائی دیتے ھیں، لیکن یہ عمل بھی کسی ٹھوس دلیل کی بنیاد پر نھیں بلکہ تعبیر ادب اور تاریخ کے سہارے وجود پذیر ہوتا ہے، سو اگر اس فروعی مسئلے میں آپ ان کی رائے پر نقد کریں تو وہ کہہ دیتے ھیں کہ یہ جزئی وفرعی مسئلہ ھے، آپ ابھی تک دقیانوسیت پر قائم ھیں، لیکن اس فرع کے ذریعے جو اصل پر زد پڑ رھی تھی اس پر بحث اٹھائی جائے تو وہ آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے یوں اجمالی جواب دیتے ہیں کہ ھمارا اس پر ایمان ھے، جیسا کہ اوپر نمبر 3 میں یہی واضح کیا گیا ہے.

5- غامدی صاحب اپنی فکر کی ترویج واشاعت کے لیے اپنی تحریر اور گفتگو میں متقدمین و متاخرین علما پر طنز وطعن کے مواقع کبھی ھاتھ سے نھیں جانے دیتے، بارہا ان کی تحریر اور گفتگو میں اپنے تئیں دعوت اور داعی کے منصب کا اظھار بھی کیا گیا، لیکن ان کی تحریر اور گفتگو میں بیشتر مقامات پر دعوت کے اسلوب کے خلاف علما و مدارس کے لیے طنز طعن کا اسلوب واضح دکھائی دیتا ہے.

6- غامدی صاحب ایک جانب اپنی رائے کو محتملِ خطا قرار دیتے ھیں، لیکن دوسری طرف وہ اپنی رائے اور فکر کو امت کی چودہ سو سالہ علمی تاریخ میں قطعی اور یقینی باور کراتے ہوئے مقابل رائے کے حامل کو یکسر غلط بھی قرار دیتے ھیں.

7- سنت وحدیث کے معاملے میں متضاد آرا رکھنے اور ارتقائی مزاج کی بنا پر سنت سے ثابت شدہ احکام و مسائل میں وہ بلاتفریق تخفیف کا معاملہ فرماتے ھیں، لیکن یہ طرزعمل کسی ٹھوس دلیل کی بنیاد پر نھیں بلکہ تعبیر ادب اور تاریخ کے زور پر یا سنت سے متعلق مزعومہ اصول کی بنیاد پر تشکیل دیتے ہیں.

8 غامدی صاحب کے ھاں اختلاف زمان ومکان کی وجہ سے رائے کی تبدیلی بکثرت پائی جاتی ھے جسے مثبت انداز میں ارتقا بھی کہہ دیا جاتا ھے سنت و حدیث سے ثابت شدہ مسائل میں یہ ارتقائی عمل ان کے ھاں معمول کی بات ھے. دیکھا جائے تو اس طرح زندگی بھر انسان تشکیکی دور سے ہی آگے بڑھ نہیں پاتا سائنس کے تشکیکی اصول کو دینیات پر اپلائی کرنا دانش مندی نہیں

9 راقم کی ذاتی رائے ھی کہ غامدی صاحب نے جعفر شاہ پھلواری ، عمر عثمانی ، حبیب الرحمن صدیقی ، غلام احمد پرویز، تمنا عمادی ، طاھر مکی ، اسلم جیراج پوری اور ان جیسی دیگر شخصیات کے کام کو ایک نئے رنگ اور نئے اسلوب میں یکجا پیش کیا ہے اگر کسی نے ان مذکورہ شخصیات کی بکھری ھوئی فکر کو یکجا دیکھنا ھو تو اس کے لیے غامدی صاحب نے محنت اور مستقل مزاجی سے یہ خدمت انجام دے کر نۓ پڑھنے والوں کے لیے خاصی آسانی پیدا کردی ہے۔

مولانا محمد عمر انور