جوں ہی آپ مفتی تقی صاحب سے اختلاف کریں گے تو

مذہبی حلقوں میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ علمی اختلاف کے لئے تقوی اور للہیت کا کوئی بلند مقام بہت ضروری ہے۔ مثلا جوں ہی آپ مفتی تقی صاحب سے اختلاف کریں گے تو پون انچیے کہیں گے

“پہلے تقی صاحب والا مقام تو حاصل کرلو”

اور تقی صاحب کے مقام سے مراد ان کے علم کے ساتھ ساتھ ان کا زہد و تقوی بھی ہوتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ علم اور زہد دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کی پیمائش یا درجہ بندی ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ ہم یہ تو کہہ پاتے ہیں کہ علامہ انور شاہ کشمیری کا علم بہت وسیع تھا مگر یہ نہیں کہہ پاتے کہ کتنا وسیع تھا ؟ یہی معاملہ زہد و تقوی کا ہے۔ پون انچیوں کی یہ بات کس قدر احمقانہ ہے اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ خود تقی صاحب یہ تصور بالکل نہیں رکھتے۔ ہم نے جب 2009ء میں مفتی تقی صاحب کے دفاع میں “اسلامی بینکاری اور صراط مستقیم” والا پیس لکھا تھا تو تقی صاحب نے اسے ہزاروں کی تعداد میں کتابچے کی صورت چھپوا کر مفت تقسیم کروایا تھا۔ انہوں نے ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ بھئی دارالعلوم کراچی آکر اپنے زہد و تقوی کی پیمائش کرواؤ تاکہ واضح ہوسکے کہ مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ سے اس درجہ دو ٹوک اختلاف کا تم حق بھی رکھتے ہو یا نہیں ؟ علمی اختلاف کے لئے دو باتیں ضروری ہیں بس۔ ایک یہ کہ جس معاملے میں آپ اختلاف کر رہے ہیں اس پر آپ کی نظر بھرپور ہو۔ یعنی آپ اس کا کما حقہ شعور رکھتے ہوں۔ اور دوسری چیز یہ کہ آپ کا مزاج دین سے وابستگی کا ہو اس سے فرار کا نہیں۔

جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ پہلے فلاں کا مقام حاصل کرکے دکھاؤ تو اس کا بہت ہی تباہ کن اثر نوجوان علماء پر یہ پڑتا ہے کہ وہ علمی غور و خوض اور اس کے اظہار سے دور رہنے لگتے ہیں۔ کیونکہ انہیں تو پیغام یہ مل جاتا ہے کہ پرفارمنس کے لئے نو من تیل بہت ضروری ہے۔ اب وہ نو من تیل کہاں سے لائے ؟ یوں اس کا مزاج یہ بن جاتا ہے کہ مجھے تو بس بڑوں کے یاقوت و مرجان تولنے ہیں، اپنی علمی استعداد کے مظاہرے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ جبکہ کرنا ہمیں یہ چاہئے کہ ان نوجوانوں کو علمیت کی جانب راغب کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

ایسے نوجوانوں کو تین باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ ایک یہ کہ خود میں شان حضور پیدا کریں۔ شان حضور یہ ہے کہ صرف عبادت کے وقت ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب متوجہ رہیں۔ اس کے لئے کسی ریاضت کی ضرورت نہیں بیداری کے اوقات میں چلتے، پھرتے، لیٹے، بیٹھے اللہ سبحانہ و تعالی سے چھوٹے چھوٹے مکالمے کرلیا کریں۔ ان مکالموں میں اپنی نالائقی اور اللہ سے مدد کی طلب پر خاص فوکس رہے۔ آپ یقین جانئے جب ہم نے اسلامی بینکاری اور صراط مستقیم والے پیس پر کام شروع کیا تھا تو تحقیق اور لکھنے کے عمل میں 17 دن لگے تھے۔ ہمیں اس بات کا بہت شدت سے احساس تھا کہ جو پنگا ہم لینے جا رہے ہیں یہ ہماری عاقبت تک برباد کرکے رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ 17 کے 17 دن 2 رکعت استخارے کے ادا کرتے رہے۔ اتفاق سے وہ مقالہ جمعے کے روز مکمل ہوا تھا اور ہم نے بعد از جمعہ اسے اخبار کے حوالے کرنا تھا چنانچہ جب جمعے کی نماز کے لئے گئے تو اسے لفافے میں ساتھ لے گئے اور بعد از جمعہ اللہ سبحانہ و تعالی سے دعاء کی کہ میرے رب اگر اس میں خیر نہیں ہے تو اس کی اشاعت ناممکن بنا دیجئے۔ اب ہم کوئی متقی وتقی نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں اپنی نالائقی اور موضوع کی حساسیت کا اچھی طرح ادراک تھا۔ ہم جانتے تھے کہ تقی صاحب والے سرکل کو چھوڑ کر باقی پورے دیوبندی مکتب فکر سے الجھنے لگے ہیں۔ سو دو باتیں بہت ضروری تھیں، ایک یہ کہ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور دوم یہ کہ چونکہ معاملہ دین کا ہے لھذا ہم اپنے رب سے مسلسل رابطے میں رہیں۔ شاید اسی کی برکت تھی کہ اس مقالے نے اگلے چھ ماہ میں مفتی تقی صاحب کی خود ساختہ “علمائے جمہور” سے جان چھڑا دی۔ انہی دنوں مفتی تقی صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی تو وقت رخصت ان سے عرض کیا

“ہم مستقل دعاء کا مطالبہ نہیں رکھتے۔ بس اتنی درخواست ہے کہ وہ جو آپ کے خاص لمحے ہوتے ہیں ان میں ایک بار ہمارے لئے دعاء کردیجئے گا”

تقی صاحب نے بہت بے ساختہ انداز میں دو بار اپنے دل پر شہادت کی انگلی مارتے ہوئے فرمایا

“یہاں سے نکلتی ہیں، یہاں سے”

سو نوجوان علماء سے بھی پہلی درخواست یہی ہے کہ اگر معاملہ دین کا ہو اور اللہ سبحانہ و تعالی ہی پیش نظر نہ ہوں تو سمجھ لیجئے معاملہ گڑبڑ ہے۔ اس صورت میں آپ کا کام کوئی نتائج بھی پیدا نہیں کرسکے گا اور الٹا آپ کے لئے رسوائی کا باعث بھی بنے گا۔ دوسری بات یہ کہ تحقیق کا مزاج پیدا کیجئے۔ کسی بھی موضوع کا پہلے اچھی طرح مطالعہ کیجئے۔ اگر آپ کی پہلے سے موضوع پر اچھی نظر ہو بھی تب بھی اس پر اپنے مطالعہ کو تازہ کیجئے۔ جب آپ حتمی نتائج تک پہنچ جائیں تو اس کے بعد ہم عصروں کے ساتھ اس پر گفتگو کر لیجئے۔ اگر کوئی سقم ہوا تو سامنے آجائے گا۔ اگر ہم عصروں کے لیول پر کوئی سقم سامنے نہ آئے تو اس کے بعد دو تین بڑے اہل علم سے بھی اپنے نتائج شیئر کر لیجئے اور دیکھئے کہ “اصحابہ تجربہ” اس کی بابت کیا فرماتے ہیں۔ اگر اس لیول پر بھی آپ کو نظر آجائے کہ آپ کے اخذ کردہ نتائج میں کوئی سقم نہیں تو پھر اللہ کا نام لے کر اس کا اظہار کر دیجئے۔ انشاءاللہ خیر و برکت ہی ہوگی۔ تیسری بات یہ کہ اگر کوئی آپ سے کہے

“دیکھو تم جو بات کرنے جا رہے ہو وہ اکابر کے موقف سے متصادم ہے لھذا ایسا مت کرو”

تو یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال باہر پھینکئے اور اس طرح کے مشورے دینے والوں سے دور رہنے کی حکمت عملی اختیار کیجئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین اور اپنے اکابر کے معاملے میں ہمیشہ اکابر کو ترجیح دیتے ہیں۔ دین اور علم کے معاملے میں کسی فرد کی ناراضگی کی پروا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ گویا آپ اس ذات باری سے یہ کہہ رہے ہیں سوری اللہ جی ! آپ کا حق اپنی جگہ مگر میں نے تو کنگ سائز خصیوں کو ہی ترجیح دینی ہے۔ آپ کو ناراض کر سکتا ہوں مگر اپنے اکابر کے چمچوں کو نہیں۔ امام غزالی نے جب یونانی فلسفے کے بیس اصول متعین کرکے ابتدائی تین اصولوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ ک ف ر بواح ہیں تو کسی نے ان سے پوچھا

“کیا شیخ بوعلی سینا بھی ک ا ف ر تھے ؟”

امام غزالی نے جواب دیا

“اگر یہ ان پر واضح تھا تو اور پھر بھی اختیار کئے رکھا تو وہ بھی ک ا ف ر تھے”

یہ ہوتی ہے دین سے کمٹمنٹ۔ بزرگوں کا ادب یہ نہیں ہے کہ آپ ان کے معاملے میں احکام دین سے پہلو تہی اختیار کرلیں۔ آپ نے کئی بار دیکھا ہوگا کہ میں نے تقی صاحب پر بعض معاملات میں سخت تنقید کی ہے۔ اس سے آپ نے زمانے کے رواج کے مطابق تاثر یہی لیا ہوگا کہ مجھے تقی صاحب خدا نخواستہ ناپسند ہیں۔ واللہ العظیم آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ میرے دل میں ان کی کیا قدر و منزلت ہے۔ اور مجھے ان سے کس درجے کی محبت ہے۔ لیکن جب کسی معاملے میں یہ لگے کہ وہ غلطی پر ہیں تو تنقید سے گریز قطعا نہیں کرتا۔ ہم ایک ہی دور میں جی رہے ہیں۔ تقی صاحب ایک بااثر صاحب علم ہیں۔ ان کے موقف ہم سب پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ لھذا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم غلاموں کی طرح بس تعمیل کرتے جائیں۔ جو باتیں اچھی ہوں گی ان کی ہم قدر کریں گے جو غلط نظر آئیں گی انہیں غلط ہی کہیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا قد ان سے بہت ہی چھوٹا ہے مگر اظہار کے باب میں ہمارا قد نہیں دلیل ناپنی ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ہم سے کہے، بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر یار آپ کا قد بہت چھوٹا ہے۔ قد تو تقی صاحب کا بھی ماضی کے ان اہل علم سے بہت چھوٹا ہے جن سے مختلف علمی مباحث میں انہوں نے اختلاف کیا ہے تو کیا تقی صاحب کا سارا سرمایہ استدلال محض اس بنیاد پر رد کردیا جائے گا کہ ان کا قد ان سے چھوٹا ہے جن سے یہ اختلاف کر رہے ہیں ؟ قطعا نہیں۔ علم کی دنیا میں شخصی قد کاٹھ نہیں دلیل تولی جاتی ہے،اور یہی حتمی ہے۔

رعایت اللہ فاروقی