سید کفایت شاہ بخاری نے نیلوی صاحب کا ایک سکرین شاٹ لگا کر یہ بتایا ہے کہ دیکھو یہ کس طرح سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ناکام سیاست دان کہہ رہے ہیں. شاید بخاری صاحب کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ بات تو دیوبندی اور اہلِ حدیث ذہنوں میں عام پائی جاتی ہے کہ حضرت علی ہوں گے بہت سے فضائل کے مالک مگر سیاسی تدبر میں ان کی خاص حیثیت نہیں ہے. حالانکہ حضرت علی کے سیاسی تدبر پر بھی بہت کچھ کہا لکھا جا سکتا ہے. یہاں صرف دو مثالیں ذکر کروں گا.
مصنف ابنِ ابی شیبہ (جس کا سکرین شاٹ بھی لگا دیا ہے) تاریخ المدینہ ابنِ شبہ اور طبقات ابن سعد وغیرہ متعدد سندوں کے ساتھ مروی ہے کہ جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے آرہے تھے انھوں راستے میں ایک جگہ رک کر مدینے میں عبید بن عمرو خارفی وغیرہ کو صحابہ اور امہات المؤمنین کے پاس مشورہ کرنے کے لیے بھیجا کہ ہم مدینے میں آئیں یا نہیں، سب نے کہا کہ آنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ انھوں نے سمجھا کہ سیدھا سادہ احتجاج ہوگا اور اپنے مطالبات پیش کر کے چلے جائیں گے، انھیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ بات بہت دور تک جا سکتی ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ واحد شخص تھے جو معاملے کی تہہ میں پہنچ کر اس کے دور تک کے نتائج کو سمجھ گئے تھے. چنانچہ حضرت علی نے انھیں آنے سے منع فرمایا، دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے حضرت علی نے فرمایا کہ بات چیت کرنے کے لیے اپنے چند نمائندہ افراد کو بھیج دو، باقی وہیں رکے رہو. اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر میری بات نہیں مانتے تو انڈے میں سے چوزہ تو نکل کر رہے گا، یعنی میری نصیحت پر عمل نہ کرنے کے نتائج بہت دور تک جائیں گے اور غلطی اپنے منطقی نتائج پیدا کرکے رہے گی. اگر وہ لوگ حضرت علی کے اس مشورے پر عمل کرتے تو ہماری تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا.
دوسری مثال یہ ہے کہ جب یہ لوگ مدینے میں آہی گئے اور معاملہ طول پکڑنے لگا تو حضرت علی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایسے مشورے دیے جن سے معاملہ سلجھ سکتا تھا بلکہ تقریباً سلجھ ہی گیا تھا، ابنِ کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ ایک موقع پر حضرت عثمان کی اہلیہ نے ان سے کہا تھا کہ آپ مروان کی بجائے علی کے مشورے پر عمل کریں، یہ مروان ہمیں مروائے گا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان حضرت علی کے مشوروں کے بر عکس خلیفہ وقت کو دوسری کسی جہت میں لیجانا چاہتا تھا. اس وقت بھی اگر حضرت علی کی کاوشوں کے آگے رکاوٹ نہ بنتی تو تاریخ کا دھارا کسی اور طرف بہہ رہا ہوتا. اس سے بھی حضرت علی کی دور اندیشی کو سمجھا جا سکتا ہے.
مفتی محمد زاہد

