خرافات میں مبتلا مذہبی ذہن

ہم مذہبی لوگ خرافات میں پڑ گئے ہیں اور بہت زیادہ پڑ گئے ہیں۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی بیج دیکھئے، شیخ الہند، حضرت تھانوی، حضرت کشمیری، حضرت مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی، مفتی کفایت اللہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اعزاز علی اور قاری طیب صاحب جیسی بڑی ہستیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے بالخصوص تین تو ایسی ہستیاں ہیں جو علم کی اس مین سٹریم کے شیان شان ہیں جو مدینہ سے نکلتی ہے اور ثمرقند تک جاتی ہے۔ میرا اشارہ شیخ الہند، حضرت تھانوی اور حضرت کشمیری کی جانب ہے۔ پھر ان میں سے بھی حضرت تھانوی کے حوالے سے میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ ان کے لٹریچر کی نسبت سے ایک بہت بڑی غفلت یہ چلی آرہی ہے کہ اسے عربی زبان میں اب تک منتقل نہ کیا جاسکا یوں علم کی مین سٹریم ان کے کام سے واقف ہی نہیں۔

خود ان کے مکتب فکر کو بھی شاید اس بات کا شعور ہی نہیں کہ حضرت تھانوی دیوبند کی پوری تاریخ میں واحد شخصیت ہیں جن کی تعلیمات انسانی نفسیات پر بیسڈ ہیں۔ پھر تعلیمات کی ہمہ گیری دیکھی جائے تو انسان کی روز مرہ زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کوئی ایک عمل ایسا نہیں جس پر حضرت تھانوی کے قلم سے رہنمائی موجود نہ ہو۔ ذرا سوچئے جس شخص نے یہ تک نہ چھوڑا ہو کہ خط لکھنے اور اس کا جواب دینے کے آداب کیا ہیں، اس نے کیا چھوڑا ہوگا ؟ ہم فقط دس برس کے تھے جب ان کی دو کتب آداب زندگی، اور آداب معاشرت پڑھی تھیں اور آج تک ان کتب کا اثر نقش ہے۔ اگر آپ حضرت تھانوی کے کام کو غور سے دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ ان کے پیش نظر دو باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ دقیق علمی موضوعات پر نیا اضافہ کیا جائے۔ اور دوسرا یہ کہ عام مسلمان باشندے کے لئے دین کی آسان رہنمائی کا انتظام کیا جائے۔ گویا حضرت تھانوی صرف اس کام پر فوکسڈ نہ تھے جو صرف اہل علم کے کام آسکتا تھا۔ بلکہ وہ اس عام آدمی کے لئے بھی لکھ رہے تھے جو بس اردو زبان پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔

اگر ہم قیام پاکستان کے بعد کی صورتحال دیکھیں تو بنوری ٹاؤن میں ہمارے والد دورہ حدیث کی جس کلاس کے شریک طالب عالم رہے اس کلاس کے طلبہ کی کل تعداد 18 تھی۔ ان اٹھارہ میں مفتی احمد الرحمن، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا عنایت اللہ خان شہید شامل تھے۔ مگر اب دیکھئے تو ایک ایک درسگاہ سے ہر سال سینکڑوں طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور گم ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ “تحقیق” کا ذوق تو چھوڑئے شوق تک وجود نہیں رکھتا۔

ہمارے خیال میں علمی خدمات کو دو چیزوں نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ایک افغان جنگیں اور دوسرا تنظیمی کلچر۔ عالم کی جگہ “کمانڈر” کا خطاب زیادہ پرکشش بن گیا ہے۔ محقق کی جگہ “قائد ملت اسلامیہ” بننا زیادہ مرغوب ہوگیا ہے۔ اس کلچر کا اتنا گہرا اثر ہے کہ ہم نے درسگاہ کی شناخت تک بدل ڈالی ہے۔ ہم اب بڑے فخر سے اپنے مدرسے کا تعارف چھاؤنی اور قلع کے عنوان سے کراتے ہیں۔ جانتے ہیں یہ چیزیں ہمارے طالب علم کی نفسیات پر کتنا تباہ کن اثر ڈال رہی ہیں ؟ ہمارا نہایت کم عمر طالب علم بھی اس سے یہ پیغام لیتا ہے کہ اس نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد “لڑنا” ہے۔ سو جب یہ فارغ ہوتا ہے تو کتب خانوں اور لائبریریوں کی جانب نہیں بلکہ افغانستان، کشمیر اور فلسطین کی طرف دیکھنا شروع کردیتا ہے۔

جو اس کی استطاعت نہیں رکھتا وہ ریاست سے لڑنے کی سکیم کا حصہ بن جاتا ہے۔ جس کی بارود سے طبیعت میچ نہ ہو وہ دوسرے مسالک سے لڑنے کے لئے زاد راہ جمع کرنا شروع کردیتا ہے۔ جو اس کی ہمت نہیں رکھتا وہ مسلک کے اندر ہی ٹانگیں کھینچنے کے لئے کوئی ہدف ڈھونڈ لیتا ہے۔ اور یہ لڑنے بھڑنے کے ہی اس کلچر کا اثر ہے کہ ہم فیس بک پر بھی ان لوگوں کی جانب سے گالم گلوچ کی صورتحال دیکھتے ہیں۔ جس کمبخت کو اتنا بھی شعور نہیں کہ باپ کی عمر کے آدمی سے گفتگو کا سلیقہ کیا ہے اس نے بھی فیس بک پر “دفاع اسلام” کا مشن اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ حالانکہ یہ بات تو انسان چار سے پانچ سال کی عمر میں سیکھ جاتا ہے کہ بڑوں سے بات کس طرح کی جاتی ہے۔ یقینا انہوں نے بھی ماں باپ سے سیکھا ہی ہوگا مگر جب یہ تعلیم کے لئے درسگاہ کی بجائے “چھاؤنی” میں داخل ہوئے تو تعلیم و تلقین کی بجائے لڑنے بھڑنے کا مزاج لے کر نکلے، اب لڑائی میں کون بڑا چھوٹا دیکھتا ہے ؟ وہاں تو سب کی ایک ہی تیغ سےایسی کی تیسی کی جاتی ہے۔

ہم کس درجے کا جہل پھیلا رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگ ڈاک اور آن لائن مراسلوں کے ذریعے خوابوں کی تعبیریں بتاتے پھر رہے ہیں۔ جس شخص کی ہم نے زندگی میں شکل تک نہیں دیکھی اس کے خواب کی تعبیر ہم کیسے بتا سکتے ہیں ؟ یہ ناممکنات اور محالات میں سے ہے۔ کیونکہ ایک ہی خواب کی دو الگ لوگوں کے لئے الگ تعبیر ہوسکتی ہے۔ مثلا خواب میں اذان اگر شریف آدمی دیکھے تو تعبیر اچھی ہے برا شخص دیکھے تو تعبیر بری ہے۔ مگر ہمارا بزرگ قوم کو ماموں بنائے جا رہا ہے۔ اور پھر ان کے “مسلکی خواب” دیکھیں تو واللہ العظیم روح کانپ جاتی ہے۔ ان من گھڑت خوابوں کی وہ من پسند تعبیریں نکالی گئی ہیں کہ خدا کی پناہ۔

کئی سال ہوئے ہم یہاں کراچی کی ایک دعوت میں شریک تھے۔ ایک نوجوان نے خوشی سے بھرپور لہجے میں بتایا کہ وہ شادی کرنے لگا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ جس لڑکی سے شادی کا ارادہ ہے اس سے شادی کے لئے استخارہ کیا تھا۔ خواب میں دیکھا کہ وہ لڑکی مسجد کے وضوء خانے میں وضوء کر رہی ہے۔ اپنے حضرت کو خواب بتایا تو انہوں نے کہا کہ بہت ہی نیک لڑکی ہے۔ اسی سے شادی کرو۔ ہم نے چونک کر عرض کیا

“اس سے شادی مت کرنا، یہ لڑکی فوت ہونے والی ہے”

مگر وہ نوجوان نہ مانا۔ کیونکہ اس کے پسند کی تعبیر تو اس نے بتا رکھی تھی جو خود کو ابن حجر اور علامہ کشمیری کے بعد تیسری ایسی ہستی سمجھتا رہا ہے جسے بخاری کا فہم حاصل ہوا۔ نتیجہ یہ کہ لڑکی شادی کے پہلے سال فوت ہوگئی۔

ابھی چند روز قبل برادرم صاحبزادہ ضیاء ناصر نے علامہ کشمیری کی سوانح پرمشتمل ایک کتاب بھیجی۔ اس کے ابتدائی صفحات پر علامہ کشمیری کے دیوبند سے ڈھابیل جانے کے پس منظر میں ایک خواب کا ذکر آیا تو بمشکل ضبط کرکے مطالعہ جاری رکھا لیکن جب صفحہ 51 پر ان کے انتقال کے موقع پر صحن میں سفید عماموں والے آسمان سے اتار دئے گئے تو وہیں مطالعہ روکا اور پی ڈی ایف ڈیلیٹ کردیا۔ عجیب لوگ ہیں، علم مسلسل زوال کا شکار ہے۔ معاشرت مسلسل تباہی سے دوچار ہے۔ دینداری کی صورتحال یہ ہے کہ جس دین نے ریا کاری سے منع کر رکھا ہے اسی دین کو ماننے والے اب بیت اللہ کے سامنے سلفیاں کھینچ کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں۔ اور خواب ہم وہ پیش کرتے ہیں جیسے دینی و علمی خدمات میں ہم قرون اولی کے لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہوں۔ ان شخصیات سے منسوب کی گئی کرامتیں دیکھیں تو لگتا ہے حسن بصری اور سفیان ثوری کوئی عام سے لوگ تھے۔ ان کے چمچوں کے خواب دیکھیں تو لگتا ہے غزالی اور رازی شاید گلی میں گلی ڈنڈا کھیلنے والے لونڈے تھے۔ اور ہم ہیں کہ ان کی خرافات سے چپکے بیٹھے ہیں۔ صرف چپکے ہی نہیں بیٹھے بلکہ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ ابھی چار سال قبل ہی وہ خواب بھی گڑھ لیا گیا جس میں حرم میں بیٹھا ایک حضرت بتا رہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کی بشارت دی گئی ہے۔ آج ملک اسی عمران خان کے ہاتھوں تباہی کے کنارے کھڑا ہے کہ نہیں ؟ ہے کسی میں جرات کہ جا کر اس حضرت کا گریبان پکڑ سکے جس نے وہ خواب گھڑا تھا ؟ ناں یہ کوئی کیسے کرسکتا ہے ؟ وہ تو مسلک کے اکابر مجرمیھامیں سے ہیں۔ ان کے تو یاقوت و مرجان تولے جائیں گے۔ سو تول رہے ہیں۔

تماشا دیکھئے کہ ہمارا ایک مستقل غرور اس بات کا ہے کہ ہم بہت دیندار ہیں۔ اور حالت یہ ہے کہ ہمارے فقیہ العصر اور ابن حجرِ وقت کے تعارف میں یہ بات شامل تھی کہ لوگوں کو بے عزت بہت زبردست طریقے سے کرتے ہیں۔ ایک خوش فہم طالب علم نے ہمارے سامنے یہ دعوی کردیا کہ ان کے حضرت مستون زندگی گزارتے ہیں۔ ہم نے پوچھا، کیا وہ اپنے ہی مدرسے میں موجود بیمار طلبہ کی عیادت کے لئے ان کے کمروں میں جاتے ہیں ؟ طالب کی زبان ہی نہیں صورت پر بھی سناٹا چھا گیا۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ پڑوسی کی خبر گیری کیا کرو کہ بھوکا تو نہیں جبکہ ہم بخاری بھی پڑھاتے ہیں اور بطور سزا طلبہ کا کھانا بھی بند کرتے ہیں۔ گویا جنہیں خود ہی ضیوف الرسول (اللہ کے رسول کے مہمان) قرار دیتے ہیں انہی کا کھانا بند کر دیتے۔ سبحان اللہ کیا کہنے اس میزبانی کے۔ ہم سے تو سڑک پر بھیک مانگنے والا وہ فقیر اچھا تھا جسے بھیک مانگنے پر ایک شخص نے کہا، آؤ کھانا کھلا دیتا ہوں۔ فقیر نے جواب دیا، کھانے کا مجھ سے اللہ کا وعدہ ہے، اس کا ذمہ وہ لے چکا، تم وہ دو جس کا ذمہ اس نے نہیں لیا، یعنی پیسے نکالو۔ حالت ہماری یہ ہے اور خواب ہم دن رات اپنے جنتی ہونے کے گھڑتے ہیں۔ عجیب لوگ ہیں، خود ہی گھر میں بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کے لئے جنت کی بشارتوں کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں۔ اندھے کی ریوڑیاں ہیں جو اپنوں میں ہی بٹ رہی ہیں۔

ہماری یہ رائے ہے کہ مدارس سے جو نئی نسل نکل رہی ہے وہ ان خرافات سے نکلے۔ جرنیل اسلام بننے کی بجائے دین کا عالم بننے کو اپنی ترجیح بنائے۔ چندہ سکیموں کا حصہ بننے کی بجائے علمی تحقیق سے وابستگی اختیار کرے۔ لوگوں کے ہجوم کی بجائے کتابوں کی قطاروں میں بیٹھنے کا ذوق پیدا کرے۔ صبح بیدار ہوکر گزری رات کے خواب نہ سوچے بلکہ چڑھتے دن کے تقاضوں کو پیش نظر رکھے۔ چار نفل پڑھنے کے بعد آسمان سے کسی سفید پگڑی والے کے اترنے کے چکر میں نہ پڑے بلکہ یہ سوچے کہ کروڑوں لوگوں میں سے جتنوں تک ممکن ہو بھلائی کی بات کیسے پہنچائی جائے ؟ اپنی عظمت کے خواب دیکھنا بند کیجئے۔ امت مسلمہ پچھلے پانچ سو سال سے زوال کا شکار ہے۔ زوال کے دور میں عذاب نہیں آرہا تو شکر منائیے چہ جائیکہ آپ اپنی عظمت کے خواب دیکھنا شروع کردیں۔اور انہیں فخر سے کتابوں میں لکھتے پھریں۔ اگر آپ عظیم ہوتے تو امت مسلمہ کا یہ حال ہوتا ؟

رعایت اللہ فاروقی