غامدی صاحب کے کچھ نظریات جو ان کی چند ویڈیوز سے بلا شک و شبہ سامنے آچکے ہیں اور اجماعِ اُمت سے صریح انحراف پر مبنی ہیں:
1. علی بن ابی طالب اہلبیت میں سے نہیں ہیں۔
2. مشاجرات صحابہ میں صرف علی برحق نہیں تھے بلکہ وہ احق یعنی مخالفین کی نسبت حق سے قریب تر بھی نا تھے۔ عملاً امیر معاویہ کا نکتہ نظر زیادہ “حقیقت پسندانہ” ہونے کی وجہ سے بہتر تھا اور معاویہ کی سیاسی “جیت” نے ان کا حق پر ہونا ثابت کردیا۔
3. یزید کی جانشینی اُمت پر امیر معاویہ کا احسان ہے۔
جاوید غامدی اپنی “فکر” کو معتبر ظاہر کرنے کے لیے خود کو علامہ احمد بن تیمیہ کی فکر سے بھی وابستہ کرتے ہیں۔ علامہ ابنِ تیمیہ کے کچھ فتاویٰ پیشِ خدمت ہیں۔ ان کی روشنی میں غامدی موصوف کی حیثئیت اور مسلک کا تعین قارئین خود کرلیں :
“اہل سنت کے نزدیک ناصبی وہ ہے جس کے اندر حضرت علیؓ سے انحراف کی علامات پائی جائیں جیسے آپؑ کے ثابت شدہ فضائل سے انکار، آپؓ کی شانِ عدالت میں کیڑے نکالنا یا خلافت کے ثبوت میں شک کرنا، اسی طرح دور از کار تاویلات کرکے آپؓ سے کم تر درجے کے اصحاب جیسے امیر معاویہؓ وغیرہ کو برتر دکھانا، حضرت علیؑ سے کد کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ کی اولاد اور فرزندان کو ناحق و ناروا اذیت پہنچانا یا یزید کی بے جا تعظیم وتوقیر کرنا؛ یہ سب ناصبیت میں شامل ہے، یعنی ناصبی وہ ہیں جو اپنے قول یا فعل سے اہل بیت کو تکلیف پہنچاتے ہیں”: يؤذون أهل البيت بقول أو عمل. [امام ابن تیمیہ: مجموع الفتاوی ٤/ ٤٣٨، ٢٨/ ٤٩٣، ۳/ ١٥٤.. بحوالہ: بدر بن ناصر العواد: النصب والنواصب ص ٧٦ ومابعد]..
۔۔۔۔۔۔۔۔
“اور اسی لیئے اھل سنت کا اتفاق ہے کہ صحابہ اور (نبی ﷺ) کے رشتے داروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے، اور اھل سنت نے برات کی ہے ناصبیوں سے جو علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے ہیں اور انکو فاسق کہتے ہیں اور اھل بیت کی حرمت میں نقص نکالتے ہیں جیسے کہ وہ لوگ جو حکومت کو لے کر ان سے دشمنی کرتے تھے یا انکے واجب حقوق سے اعراض کرتے تھے یا یزید بن معاویہ کی تعظیم میں ناحق غلو کرتے ہیں.”
مجموع فتاوى ابن تيمية (٦/٤٢٦)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دار تھے (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں)، اور آپ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی اور اس کے رسول اور تمام مومنین کے نزدیک افضل ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے، ان کے والد سے اور ان کے بھائی سے بھی جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خود افضل تھے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں، اور وہ سابق اور اول صحابہ کرام جنہوں نے درخت کے نیچھے بیعت کی ان تمام صحابہ سے افضل ہیں جو فتح مکہ پر اسلام لائے، اور ان فتح مکہ والوں میں سے بھی کئی زیادہ صحابہ کرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں، اور پھر بیعت رضوان والے تو تمام ہی ان فتح مکہ والوں سے افضل ہیں۔ اور پھر علی رضی اللہ عنہ بعیت رضوان والوں میں جمہور سے افضل ہیں (سوائے خلفاء ثلاثا کے)، یعنی علی رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں سوائے تین صحابہ کے (یعنی ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم) اور اہل سنت میں سے ایسی کوئی نہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان (تین کے علاوہ) کسی کو ان پر مقدم کرے۔”
(منھاج السنۃ 4/396)
۔۔۔۔۔
“ان (اہل بیت) سے محبت کرنا ہمارے ہاں فرض و واجب ہے، اس پر اجر ملتا ہے، صحیح مسلم میں زید بن ارقم سے ثابت ہے کہ رسول الله ﷺ نے مکہ و مدینہ کے درمیان غدیر میں خطبہ دیا، جس غدیر کو خم (نامی تالاب) کہا جاتا تھا، تو آپؐ نے فرمایا: «اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کتاب الله۔۔۔» اللہ کی کتاب کا ذکر کیا اور اس کے لیے اُبھارا پھر کہا: «میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے تعلق سے اللہ سے ڈراتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے تعلق سے اللہ سے ڈراتا ہوں» پھر (ابن تیمیہؒ نے) فرمایا: اور ہم لوگ اپنی نمازوں میں ہر روز کہتے ہیں “اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم إنك حميد مجيد وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد”۔ تو جو اُن سے بغض رکھے اس پر الله کی، ملائکہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالی اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا۔”
[مجموع الفتاوى لابن تيمية ٤/ ٢٩٨]
۔۔۔۔۔۔
“جس شخص نے حسینؓ علیہ السلام کو قتل کیا یا اس نے ان کے قتل میں معاونت کی یا اس پر رضامندی کا اظہار کیا تو اُس پر لعنت ہے اللّٰہ کی! فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی! اللّٰہ تعالیٰ ایسے شخص کا فرض قبول فرمائے گا نہ نفل!”
[شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مجموعُ الفتاوى ۴/۴۸۷]
۔۔۔۔۔۔۔
“نواصب کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے قول یا عمل سے اہلِ بیت کی ایذا رسانی کرتے ہیں”
[مجموعة الرسائل الكبرى لابن تيمية ٤٠٨/١]
۔۔۔۔۔۔۔
“اور یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر چہ یہ بات مختار ہے کہ صحابہ کے درمیان جو ہوا اس بارے میں(ان کی ذوات پر طعن و تشنیع سے) پرہیز کیا جائے، اور دونوں گروہوں کے لیے استغفار کیا جائے اور ان سے محبت رکھی جائے۔ مگر یہ عقیدہ رکھنا واجب نہیں جیش میں سے ہر ایک صحابی مجتہد اور متاول تھا جیسے کہ علماء کرام ہوتے ہیں۔ بلکہ ان میں گناہ گار اور برے بھی تھے، ان میں سے بعض اجتہاد کرنے سے قاصر تھے کیونکہ ان میں ایک قسم کی نفس پرستی تھی. لیکن اگر گناہ بہت ساری نیکیوں کے مقابلے میں ہو تو وہ مرجوح اور قابل معافی ہوتے ہیں۔”
مجموع الفتاوى ٤٣٤/٤
۔۔۔۔۔۔۔
”جس شخص کو زعم ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نظر انداز کرکے خود ہی قرآن و سنت کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لے گا، وہ اہل بدعت میں سے ہے”.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
۔۔۔۔۔
“اور اسی لیئے اھل سنت کا اتفاق ہے کہ صحابہ اور (نبی ﷺ) کے رشتے داروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے، اور اھل سنت نے برات کی ہے ناصبیوں سے جو علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے ہیں اور انکو فاسق کہتے ہیں اور اھل بیت کی حرمت میں نقص نکالتے ہیں جیسے کہ وہ لوگ جو حکومت کو لے کر ان سے دشمنی کرتے تھے یا انکے واجب حقوق سے اعراض کرتے تھے یا یزید بن معاویہ کی تعظیم میں ناحق غلو کرتے ہیں.”
مجموع فتاوى ابن تيمية (٦/٤٢٦)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد الیاس