مسلمان فرقوں کے “عقائدی” تنازعات بھی خاصے دلچسپ ہیں، متعدد اختلافات ایسے امور میں ہوئے جن کا عملی زندگی یا بنیادی ایمانیات سے کوئی تعلق نہ تھا؛ لیکن یہ جنگ و جدل کا باعث بنے۔
اِیسے ہی مسائل میں سے ایک “محنة خلق القرآن” یا قرآن کے مخلوق ہونے نہ ہونے یا حادث و قدیم ہونے کا مسئلہ ہے۔
(قرآن حادث/ اللہ کا خلق کردہ، بنایا ہوا ہے یا نہ، یہ قدیم اور غیر مخلوق ہے؟ یہ بحث تھی)۔
قرآن یا احادیث نبوی میں اس بابت نصوص مذکور نہیں ہیں۔ عباسی دور میں خاصکر مامون کی حکومت میں یہ مسئلہ سامنے آیا، تقریباً 218 ہجری/ 833ء سے اس بحث نے شدت پکڑی۔ کہا جاتا ہے کہ پندرہ سال تک اس مسئلے کا حکومتی سرپرستی میں پرچار کیا گیا کہ قرآن حادث اور مخلوق ہے؛ چنانچہ اس میں مسلمانوں کے دو گروہ ہوئے، ایک کے خیال میں قدیم اور “خالق” صرف اللہ ہے، ماسوا اللہ حادث اور اللہ کی مخلوق ہے، پس قرآن حادث اور مخلوق ہے۔ دوسرے گروہ کے مطابق، قرآن اللہ کا کلام ہے، کلام اللہ قدیم ہے، پس قرآن قدیم ہے، حادث اور مخلوق نہیں ہے۔
پہلے گروہ میں نمایاں نام معتزلہ اور جہمیہ کا سامنے آتا ہے، جبکہ دوسرے گروہ میں جمہور اہل سنت خاصکر محدثین جن میں نمایاں نام امام احمد بن حنبل (م: 241ھ) کا ہے وہ اس بحث میں شریک رہے۔ دونوں گروہوں نے اس مسئلے میں کھل کر ایک دوسرے کی “تکفیر” کی۔
عباسی حکمرانوں میں سے مامون (م: 218ھ) نے پہلے گروہ کی حمایت کی، جبکہ متوکل (م: 247ھ) نے دوسرے گروہ کی۔ دونوں گروہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔
امام احمد ابن حنبل کی کتب اور جوابات میں قرآن کو حادث یا مخلوق کہنے والوں کی سخت تکفیر کی گئی ہے۔ مصر سے تین محققین نے “الجامع لعلوم الامام احمد” کے نام سے چار جلدی کتاب شائع کی ہے جو مکتبہ شاملہ میں موجود ہے، اس کی تیسری جلد میں امام احمد بن حنبل کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ فرمایا:
قرآن، اللہ کا کلام ہے جس کے ذریعے سے اللہ بات کی ہے، یہ مخلوق نہیں ہے، جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ کا کلام مخلوق ہے، وہ جہمی (فرقے والا اور) کافر ہے، جس نے یہ گمان کیا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اسی پر رُک گیا اور یہ نہ کہا کہ یہ مخلوق نہیں ہے وہ پہلے گروہ سے بڑا کافر اور خبیث ہے۔ (یہ الفاظ کتاب السنۃ میں بھی امام احمد بن حنبل سے نقل کیے گئے ہیں)۔
گویا امام صاحب کے مطابق اس مسئلے میں یہ رائے رکھنا لازمی ہے کہ قرآن، اللہ کا کلام ہے، مخلوقِ خدا نہیں ہے۔
اگر یہ مسئلہ اس قدر اہم ہوتا تو قرآن اور احادیث نبوی میں مذکور ہوتا۔
ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے اس بحث کو بے فائدہ قرار دیکر اپنے ساتھیوں کو اس میں حصہ لینے سے منع کیا۔
اہل سنت محدث امام دارمی (م: 280ھ) نے اپنی کتاب “نقض الامام ابي سعید عثمان بن سعید علی المریسي الجھني” کی پہلی جلد کے دوسرے حصے میں سلف کے اقوال نقل کرتے ہوئے اپنی سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام (م: 148ھ) سے نقل کیا ہے کہ ایک سائل کے جواب میں فرمایا:
قرآن نہ خالق ہے، نہ مخلوق، یہ اللہ کا کلام ہے۔
ایسی ہی ایک روایت شیخ صدوق (م: 381ھ) نے اپنی کتاب “التوحید” میں امام علی رضا علیہ السلام (م: 203ھ) سے نقل کی ہے:
اَلْحُسَيْنِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: قُلْتُ لِلرِّضَا عَلِيِّ بْنِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنِ اَلْقُرْآنِ أَ خَالِقٌ أَوْ مَخْلُوقٌ فَقَالَ لَيْسَ بِخَالِقٍ وَ لاَ مَخْلُوقٍ وَ لَكِنَّهُ كَلاَمُ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ .
کہ امام علیہ السلام سے حسین بن خالد (نام کے راوی نے) دریافت کیا کہ اے فرزندِ رسول! ہمیں قرآن کے بارے میں بتائیں کہ یہ خالق ہے یا مخلوق؟ فرمایا:
نہ یہ خالق ہے اور نہ ہی مخلوق؛ لیکن یہ تو اللہ کا کلام ہے۔
معاصر محقق حیدر الحسن البیاتی نے چوتھی، پانچویں صدی ہجری کے معروف شیعی متکلم سید مرتضیٰ، علم الھدیٰ (م: 436ھ) اور معتزلہ کے کلامی افکار کی بابت “الشریف المرتضی و المعتزلة” کے عنوان سے کتاب لکھی ہے، جو قُم (ایران) کے ادارے دار الحدیث سے شائع ہوئی ہے، اس کتاب کے صفحہ 164 پر محقق لکھتے ہیں کہ چوتھی، پانچویں صدی ہجری کے عظیم شیعی متکلم شیخ مفید (م: 413ھ) نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے کہ اس بحث میں اہل تشیع کا اس بات پر اجماع ہے کہ کلامِ خدا، حادث ہے اور اہل بیت علیھم السلام سے منقول روایات بھی یہی بتاتی ہیں۔ جمہور شیعہ متکلمین کا یہی نظریہ کے کہ قرآن مجید حادث ہے؛ ہاں اس پر لفظ “مخلوق” کا بولا جانا درست نہیں ہے، اہل بیت علیھم السلام سے منقول روایات میں بھی یہ ممانعت مذکور ہے (یعنی قرآن مجید کو “مخلوق” نہیں کہنا چاہیے)۔
یہ مسئلہ ماضی میں لمبے عرصے تک مسلمان متکلمین اور محدثین کے مابین نزاع کا سبب رہا؛ لیکن اس کا عمل سے یا ہماری دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امجد عباس