مولا علی المرتضیٰ کی سیرت

مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ طبعاً خوش مزاج، زندہ دل اور سہل طبعیت کے انسان تھے۔ آپ جلدی پریشان نہیں ہوتے تھے بلکہ بڑی بڑی خوفناک جنگوں میں بھی پرسکون رہتے تھے۔ آپ کی حسِ مزاح بہت اچھی تھی اور گھمبیر ماحول میں بھی آپ دل لگی یا ہنسی مذاق کی کوئی بات کر کے سب کو ہنسا دیا کرتے تھے۔ آپ کو غصہ بھی جلدی نہیں آتا تھا بلکہ بدترین کافروں کے ساتھ بھی جنگ کے میدان سے باہر، امن کی حالت میں ملتے تو بہت مہربانی اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ ابوطالب، حمزہ، بنتِ اسد، رسول اللہ اور سیدّہ زہرا علیہم السلام کی جدائی کے صدمے سہے اور گریہ بھی کیا لیکن اداسی کبھی بھی آپ کا مستقل مزاج نا بنی۔

لیکن پھر افسوس ناک حالات میں سیدّنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے صدمے کے بعد جنگِ جمل میں اپنے ہی پیاروں سے پہنچنے والے دُکھ اور صفین میں اُمت کی نافرمانی اور گمراہی کے غم دنیا نے آپ پر یوں اثر کیا کہ جو مسکراتا چہرہ علی کی پہچان تھا، وہ کہیں کھوگیا۔ جس زبان پر شاذ و نادر ہی سخت بات آتی تھی، اسی زبان سے ادا ہونے والے آخری برسوں کے خطبوں میں غصہ اور تلخی ہے۔ بدر، احد، خندق، خیبر اور حنین کے معرکے ہنستے ہوئے سرانجام دینے والے شیرِ خدا کو جب مسلمانوں نے اپنے مقابل آنے پر مجبور کردیا تو امت کے اس رویے پر پریشانی ہر وقت آپ کے چہرے اور آنکھوں میں نظر آنے لگی۔ ہمیشہ لوگوں میں گُھل مِل کر رہنے والے علی تنہاء رہنے لگے۔ رات گئے، کوفہ سے باہر تنہاء کنوئیں کنارے بیٹھ کر پانی میں اپنا عکس دیکھ کر زمانے کی ناقدری پر روتے ۔۔۔ یہاں تک کہ اپنی داڑھی کو پکڑ کر کہتے کہ کب وہ لمحہ آئے گا کہ یہ خون سے لال ہوجائے گی۔

احمد الیاس