نوے کی دہائی میں ہم جس عسکری تنظیم کا حصہ تھے اس میں نوجوان مبلغین کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا۔ یہ گروپ مختلف علاقوں میں جا کر تقاریر کرتا اور جو چندہ وغیرہ حاصل ہوتا وہ لا کر شعبہ مالیات میں جمع کرا دیتا۔ ایک ان میں سے ہمارے مرحوم دوست مولانا اللہ وسایا قاسم تھے اور دوسرے مرغوب دوست مولانا الیاس گھمن ۔ تیسرے کا نام ہم نہیں بتائیں گے کیونکہ ان کا ہم آپ کو قصہ سنانے لگے ہیں۔
اس تیسرے مبلغ کو ایک دن خیال آیا کہ یار تقریر میں کرتا ہوں، چندہ میری تقریر کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اور جمع وہ تنظیم کے شعبہ مالیات میں کرانا پڑتا ہے۔ سو کیوں نہ تنظیم چھوڑ کر یہ دھندہ اپنے لئے کروں ؟ یوں یہ تنظیم چھوڑ کر لاہور میں ٹک گئے اور ذاتی جلسہ عام کرنے لگے۔ انہی دنوں ہمارا لاہور جانا ہوا تو اطلاع پا کر وہ ہمیں لینے آگئے۔ گھر لے جا کر خوب آؤ بھگت کی اور تنظیم چھوڑنے کے “نقد فوائد” گنوانے شروع کر دئے۔ عشاء کے قریب ہم نے رخصت طلب کی تو کہنے لگے
“میرا جلسہ دیکھے بغیر جائیں گے ؟ کمال ہے”
یوں ہمیں ان کا جلسہ عام دیکھنے کے لئے رکنا پڑ گیا۔ جلسے میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لگ بھگ سو سوا سو زندہ دلانِ لاہور کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے۔ اور ہمارا مبلغ جو اب خطیب کہلاتا تھا عوام کی اس کثیر تعداد پر بے حد خوش۔ یہ بات وہ جلسے کے لئے آتے وقت ہمیں راستے میں بتا چکے تھے کہ اب وہ مبلغ شبلغ نہیں بلکہ باقاعدہ خطیب ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے قبل ذرا خطیبوں کا تعارف بھی لے لیجئے تاکہ بات سمجھنے میں سہولت رہے۔ شیعوں کا ذاکر اور سنیوں کا خطیب ایک ہی چیز ہے۔ دونوں کا علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ شیعوں کے ذاکروں کا تو پتہ نہیں کہ کیسے وجود میں آتے ہیں۔ ہمارے خطیب البتہ 99 فیصد وہی ہوتے ہیں جو درس نظامی کے ثانیہ سے رابعہ والے سال کے دوران تعلیم چھوڑ کر مدرسے سے فرار ہوگئے ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اسی سے لگا لیجئے کہ ہماری تنظیم والے تین واعظوں میں سے صرف الیاس گھمن ہی باقاعدہ بلکہ راسخ العلم عالم دین تھے۔ ذاکروں اور خطیبوں کے ہاں من گھڑت روایات کی بھرمار اور حد درجے مبالغہ آرائی ہوتی ہے۔ ہمارا مبلغ اب خطیب تو بن گیا تھا مگر تقریریں تو اس نے صرف جہادی ہی رٹ رکھی تھیں۔ چنانچہ اس رات اپنے خطاب میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرتے ہوئے بھی مبالغہ آرائی فرما گئے جو ان کے خطیب بننے کا نقد نتیجہ تھا۔ بڑے جوش سے فرمایا تھا
“حضرت امیر معاویہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے بحری فوج بنائی تھی۔ کشتی جیسی سواری انہی کی ایجاد ہے”
ہم تو بھنا گئے۔ جلسہ ختم ہونے پر روانہ ہوتے وقت ہم نے ان کے سکوٹر پر ساتھ بیٹھتے ہی عرض کیا
“اوے خطیب ! وہ حضرت موسی اور حضرت نوح علیہما السلام والی کشتیاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کے بعد بنی تھیں کیا ؟”
خطیب سکوٹر رکشے میں ٹھوکتے ٹھوکتے بچا۔ جب سنبھلا تو پوچھا
” ہاں یار ! یہ حضرت نوح علیہ السلام والی کشتی کا تو مجھے پتہ ہے، بس آج ذہن میں نہیں رہا۔ مگر حضرت موسی علیہ السلام کی کشتی کا تو نہیں سنا”
“وہ تو تب سنتا ناں جب درجہ رابعہ سے آگے بھی پڑھتا”
رعایت اللہ فاروقی