اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بہت کم خواتین کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں. جب ان حقوق کی کوئی بات کرتا ہے تو فورا کچھ مذہبی طبقے کے افراد سامنے آ جاتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو مکمل حقوق دئیے ہیں. گویا لوگوں کے ذہنوں میں یہ زہر گھولا جاتا ہے کہ حقوق کا مطالبہ اسلام کے خلاف نعرہ برہم زن ہے. اسلام بیچ میں کہاں سے آ گیا.
افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے دن سے ہی جاگیردارنہ نظام کو تحفظ دیا گیا تھا. وہی جاگیر دار ہمیشہ اسمبلیوں کے ممبر اور وزرا ہوتے ہیں. یہاں کوئی بھی جمہوریت، آمریت، سوشلزم، اسلامی نظام، قومی حکومت، ٹیکنوکریٹس کی حکومت آ جائے، اس میں شامل افراد کی لسٹ اٹھا کر دیکھیں وہی افراد ہر حکومت میں پارٹی بدل کر، منشور تبدیل کر کے، وفاداری بیچ کر، ضمیر کا سودا کر کے دادا سے پوتا تک ایک ہی نسل ہمیشہ سے براجمان ہے.
اس دھرتی پر جاگیردار فرعون کے وارث ہیں، یہاں مسئلہ عورت اور مرد کا نہیں، استحصالی طبقہ اور محنت کش کا ہے. استحصالی طبقہ فرعون کی طرح مردوں کو زندہ در گور کرنے اور خواتین کو اپنے کام کاج کے لیے ذلت آمیز زندگی کے ساتھ ساتھ زندہ رکھنے کے فارمولے پر کاربند ہیں.
مذہبی طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت کے ذرائع معاش جاگیر دار طبقے سے وابستہ ہوتے ہیں اس لیے وہ دونوں طبقے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور قرآن کی رو سے کسی بھی سماج کے لیے یہ صورت حال انتہائی تباہ کن ہے کہ أحبار و رھبان یعنی مولوی اور پیراور سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے آپس میں ملی بھگت کرلیں.
یہ اسلام و کفر کی جنگ نہیں کہ مذہبی جماعتیں عورت مارچ کے خلاف نکل آئیں. اصل بات یہ ہے کہ استحصالی طبقے کے ہاتھوں عورت کی عزت و آبرو جب روندی جاتی ہے تو اسے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا کہ اسے ابارشن کی آزادی مل جائے جبکہ مذہبی جماعتوں کو مظلوم عورت کی مدد کے لیے میدان میں اترنا چاہیے تھا کہ
ہمارے ہوتے ہوئے تمہاری طرف کوئی میلی نظر سے نہیں دیکھ سکے گا.
نہ یہ کہ کہ اسے کفر و اسلام کی جنگ بنا کر جگ ہنسائی کرائیں.
طفیل ہاشمی