کیا انسان مجبور ہے یا مختار؟
مولانا روم
مولانا روم نے اپنی مشہور کتاب مثنوی میں جس طرح تقدیر کے پیچیدہ مسئلہ کو اشعار (فارسی) میں بیان فرمایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی. طرز بیان بہت دل آویز ہے اور طریق استدلال ایسا عجیب وغریب کہ دل میں اثر کرتا چلا جاتا. احباب کی خدمت میں مولاناے روم کے ان اشعار کا ترجمہ بطور ہدیہ پیش ہے.
0. بندہ کا تردد میں ہونا خود اس کے مختار ہونے کی دلیل ہے تردو اختیاری ہی چیز میں ہو سکتا ھے تردو کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کو یہ سوچ ہے کہ میں کس جانب کو اختیار کروں۔
1. امرونہی اور اعزازواکرام کے لیے انسان کو مخصوص کر لینا اور پتھروں کو کسی قسم کا امرو نہی یا اعزاز و اکرام نہ کرنا یہ بھی دلیل ہے کہ انسان مختار ہے اور پتھر مجبور محض .
2. دشمن پر غصہ آنا اور چھت سے اگر لکڑی گر جاے اس پر غصے کا خیال تک نہ آنا یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ آپ دشمن کو مختار اور لکڑی کو مجبور محض سمجھتے ہیں۔
3. جبر و اختیار کا مسلہ اس قدر بد یہی ہے کہ جانور بھی اس سے بے خبر نہیں اونٹ کو اگر لکڑی مار دی جائے تو وہ بھی مارنے والے کی جانب توجہ کرتا ہے۔ لکڑی کی طرف توجہ نہیں کرتا۔کتے کو اگر پتھر مارا جاے تو وہ مارنے والے پر حملہ کرتا ھے۔پتھر پر حملہ نہیں کرتا جس سے صاف ظاہر ہے کہ کتا اور اونٹ مارنے والے کومختار سمجھ کر اس سے طرز کرتے ہیں اور پتھر اور لکڑی کو مجبور محض سمجھ کر اس سے کوئی تعریض نہیں کرتے۔
4. بندہ کا یہ کہنا کہ میرا ارادہ یہ ھے کہ کل کو یہ کروں گا اور پرسوں کو یہ کروں گا۔یہ بھی اس کے مختار ہونے کی صریح دلیل ہے.
5. انسان کا اپنے کیے ہوے پر پشیمان اور ندامت ہونا یہ بھی اس کے مختار ہونے کی دلیل ہے.
6. بحالت بیماری آہ زاری کرنا، اپنے کیے ہوے پر پشیمان ہونا،گناہوں سے توبہ اور استفغار کرنا۔آیندہ کے لیے عہدوپیمان کرنا یہ اختیار کی علامتیں ہیں۔ اگر وہ معاصی قدرت و اختیار میں نہ تھے تو ان پر یہ شرم اور ندامت، حسرت وجحالت کس لیے؟ ؟
7. اگر مخلوق اور بندے کا فعل درمیان میں ہو تو پھر کسی کو ہر گز نہ کہنا چاہیے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا۔
8. اگر بندہ اور اجہتاد کو تقصیر میں کوئی دخل نہ ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام” ربنا ظلمنا انفسناالخ” کہہ کر اپنی تقصیر کا اعتراف کیسے فرماتے”
9. بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ گناہ تو قسمت اور تقدیر سے تھا۔جب قضا ہی ایسی تھی تو ہماری احتیاط کیا نفع دیتی”۔
10. قضا پر بہانہ مت رکھو اپنا جرم دوسرں پر کیوں ڈالتے ہو”۔
11. خون تو کرے زید اور قصاص کیا جاے عمرو سے ، شراب تو پیے بکر اور حد خمر جاری ہواحمد پر۔ گناہ تو کرے آپ اپنی کوشش اور جدو جہد سے اور بہانہ رکھیں قضا و قدر پر۔
12. تو نے کس کام میں کو شش کی تھی اس کا نتیجہ تجھ کو حاصل نہ ہوا تو نے کب کاشت کی تھی اور اس کاثمر تجھ کو نہ ملا ہو”۔ یعنی جس کام میں بھی تو نے کو شش کی اس کا نتیجہ اور ثمرہ تجھ کو ضرور ملا اسی طرح اپنے برے اور اچھے اعمال کے اخروی نتاہج ثمرات کو بھی سمجھو۔
13. جو فعل تیری جان اور تن سے پیدا ہوتا ھے وہ قیامت کے دن فرزند کی طرح تیرا دامن گیر ہو گا”۔
جس طرح دنیا میں ایک مجازی حاکم کی سزا عین عدل و انصاف ھے تو اس احکم الحاکمین کی جزا کیسے عدل اور انصاف کے خلاف ہو سکتی ھے
تمثیل :۔
1. اے دل ایک مثال بیان کرتا ہوں کہ جبرو اختیار کا فرق معلوم ہو سکے۔
2. ہاتھ کی ایک ارتعاشی اور اضطراری حرکت ھے اور ایک اختیاری اور ارادی حرکت ھے۔دونوں حرکتیں حق تعالی کی پیدا کی ہوئی ہیں مگر ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کر سکتے ہو شخص جانتا ھے کہ ارتعاشی حرکت میں بندہ کا اختیار و ارادہ کو دخل نہیں۔اور جب ہاتھ کو اپنے ارادہ سے حرکت اور جنبش دی جاے تو وہ حرکت اختیاری حرکت سمجھی جاتی ھے۔
3. یہی وجہ ھے اختیاری حرکت پر کبھی پشمانی اور ندامت ہوتی ھے مگر ارتعاشی حرکت والا کبھی نادم اور پشمان نہیں دیکھا گیا۔انسان نادم اس فعل پر ہوتا ھے کہ جس کو اپنے اختیاری و ارادہ سے کیا ہو۔اضطراری فعل پر کبھی نادم نہیں ہوتا۔پس انسان کا اپنے افعال پر نادم اور پشمان ہونا اس کے مختار ہونے کی دلیل ھے ۔
4. ہماری یہ زاری الیل اضطرار کی ھے اور شرمندگی کی دلیل اختیار کی ھے۔
5. اگر اختیار نہ ہوتا تو یہ شرم اور حسرت اور ندامت اور ذلت کیوں ہوتی۔
6. جس کام میں تیری خواہش ہوتی ھے اس میں اپنی قدرت اور اختیار کو خوب ظاہر دیکھتا ہے”۔
7. اور جس کام میں تیری خواہش نہیں ہوتی اس کام میں تو جبری بن جاتا ھے اور کہتا ھے کہ یہ خدا کی جانب ھے”۔
(( مثنوی دفتر اول صفحہ 54, مثنوی دفتر ششم جلد 2 صفحہ 40
—-
تقدیر و تدبیر !!!!
بہ روما گفت با من راہبِ پیر
کہ دارم نکتہ از من فرا گیر
کند ہر قوم پیدا مرگ خود را
ترا تقدیر و مارا کشت تدبیر
شہر روم میں عیسائیوں کے اُسقفِ اعظم پوپ سے جب میری ملاقات ہوئی تو اُس نے مجھ سے کہا ـــ’’اے اقبال! میں تُجھے ایک نُکتہ سمجھاتا ہوں۔ تُو نے بہت کچھ پڑھا ہو گا اور بہت سے لوگوں کی دانش مندانہ باتیں سُنی ہو گی مگر جو بات میں تجھے بتانا چاہتا ہوں، وہ تُو نے نہ کسی کتاب میں پڑھی ہو گی اور نہ کسی کی زبان سے سُنی ہو گی۔ وہ نُکتہ یا پتے کی بات یہ ہے کہ اس دُنیا میں ہر قوم اپنی موت کا سامان خود مہیا کرتی ہے۔ ہر قوم جو اندازِ فکر و عمل اختیار کرتی ہے، وہی اُس کے لیے تباہی اور موت کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ دیکھ لو کہ تم مسلمانوں کو تقدیر نے مارا اور ہم یورپ والوں کو تدبیر نے تباہ کیا۔ مسلمان اس لیے تباہ و برباد اور ذلیل و خوار ہوئے کہ انھوں نے تدبیر سے مُنہ موڑ کر اپنی بے عملی کو تقدیر کا نام دے لیا اور تقدیر پر بھروسا کر کے ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ جب کہ یورپ والے اس لیے تباہ ہوئے کہ اُنھوں نے تقدیر سے مُنہ موڑ کر اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ لیا اور اپنے آپ کو مختارِ مطلق سمجھتے ہوئے خُدا سے بیگانہ ہو گئے۔‘‘
علّامہ اقبالؒ نے اس رباعی میں پوپ کی زبانی جبر و اختیار کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانی زندگی میں تدبیر اور تقدیر دونوں کا مقام واضح کیا ہے۔ انسان اس دُنیا میں نہ تو مجبور محض ہے اور نہ مُختارِ مطلق، بلکہ وہ ایک لحاظ سے مجبور بھی ہے اور ایک لحاظ سے مختار بھی ؎
چُنیں فرمودۂ سلطانِ بدرؐ است
کہ ایمان درمیانِ جبرو قدر است
(حضور ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے )
چنانچہ پوپ کی زبان سے اقبالؒ یہ کہلواتے ہیں کہ اُس دُنیا میں ہر قوم اپنی موت خود خریدتی ہے۔ جبر و قدر کے بارے میں ایک قوم جو اندازِ فکر و عمل اختیار کرتی ہے، وہی اُس کے لیے موت کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ اقبال ؒ نے اس بات کی وضاحت کے لیے پوپ کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ مسلمان کو تقدیر نے اور پوپ والوں کو تدبیر نے ہلاک کیا۔ مسلمانوں نے اپنے آپ کو مجبور محض سمجھ لیا اور اپنی بے عملی کو تقدیر کا نام دیتے ہوئے خارجی اسباب و مادّی وسائل سے یکسر بے نیاز ہو گئے۔ یوں اُن کی تقدیر پرستی اُن کے لیے تباہی، ہلاکت اور موت کا باعث بن گئی۔ اس کے برعکس یورپ والوں نے اپنے آپ کو مختارِ مطلق سمجھ لیا اور خُدا سے بالکل بیگانہ ہو گئے۔ چنانچہ اُن کی تدبیر ہی اُن کے لیے موت کا سامان بن گئی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان نہ مجبور محض ہے اور نہ مختار مطلق بلکہ اس کا مقام ان دونوں کے درمیان ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اُن سے سوال کیا کہ انسان مجبور ہے یا مختار ہے؟ آپ نے اُسے ارشاد فرمایا کہ اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھاؤ ۔ اُس نے اپنی ایک ٹانگ اُوپر اٹھا لی تو آپ نے اُس سے فرمایا کہ اپنی دوسری ٹانگ بھی اوپر اُٹھا لو۔ اس شخص نے جواب دیا کہ دوسری ٹانگ تو میں نہیں اُٹھا سکتا، اُٹھاوں گا تو کھڑا کیسے رہ سکوں گا؟ زمین پر گر پڑوں گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بس تقدیر اسی کا نام ہے۔ انسان ایک حد تک مختار ہے اور اس حد سے آگے مجبور ہے۔
مسلمانوں نے تقدیر پرستی کو جس طرح اپنی بے عملی، ترکِ دُنیا بلکہ غیروں کی محکومی کا جواز بنایا ہے، اس کی طرف علّامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ اشارے کیے ہیں۔ اپنی ایک نظم ’’تن بہ تقدیر‘‘(ضربِ کلیم ) میں اُنھوں نے اس بات پر دُکھ کا اظہار کیا ہے کہ جس قرآن کی برکت سے مسلمانوں کو ایسا بلند مقام نصیب ہوا تھا کہ چاند تارے بھی اُن کے مطیعِ و فرمانبردار ہو گئے تھے، اب اسی قرآن کو دُنیا ترک کر دینے کی تعلیم کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ قرآنِ حکیم نے مسلمانوں کو ایمان کی پختگی عطا کر کے ایک ایسا مقام بخشا تھا کہ اُن کے ارادے مشیتِ الٰہی بن گئے تھے، مگر اب وہ تقدیر پر بھروسا کیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ جب وہ احکامِ الٰہی کی پوری طرح تعمیل کرتے تھے تو خُدا اُن کی مدد کرتا تھا۔ وہ راہِ حق میں جو بھی قدم اُٹھاتے تھے، اللہ کی تائید سے وہ فتح و کامرانی کی منزلِ مقصود کی طرف اٹھتا تھا۔ لیکن آج انھوں نے تقدیر کا مطلب ہی کچھ اور سمجھ لیا اور اس کے نتیجے میں اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگے ہیں۔
ایک دوسری نظم ’’تقدیر‘‘ (ضربِ کلیم) میں علّامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نااہل اور نالائق کو قوت و طاقت اور عظمت و بزرگی حاصل ہو جاتی ہے اور باکمال زمانے میں ذلیل و خوار پھرتے نظر آتے ہیں۔ بے شک دُنیا میں ایسی مثالیں ملتی ہیں لیکن اس حقیقت کی طرف بہت کم لوگوں کی نظر جاتی ہے کہ تقدیر کی نظر ہر آن اور ہر لحظہ قوموں کے عمل پر رہتی ہے۔ تقدیر مسلسل قوموں کے اعمال کو نگاہ میں رکھتی ہے۔ جو قومیں جدوجہد میں سرگرم رہتی ہیں، ہمت، جاں بازی اور سرفروشی سے کام لیتی ہیں، وہ یقینا ترقی کرتی اور عروج پاتی ہیں، جو حق و انصاف پر کاربند ہوتی ہیں، اُن کا عروج پائدار ہوتا ہے اور جو خدائی فرمان کو پس پُشت ڈال دیتی ہیں، یا حق و انصاف سے رُوگردانی کرتی ہیں، اُن کا عروج چار دن کی چاندنی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی بدعملی کی بنا پر یا تو مٹ جاتی ہے یا ذلیل و خوار ہو کر اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہیں۔ چنانچہ مسلمان اس لیے تباہ ہوئے کہ اُنھوں نے تقدیر پرستی کے غلط تصور کا سہارا لے کر بے عملی اور ترکِ دُنیا کو اختیار کرکے تدبیر اور جدوجہد سے کنارہ کشی کر لی، جبکہ یورپ والے اس لیے برباد ہو گئے اُنھوں نے اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے خدا سے بیگانگی اختیار کر لی۔ اللہ تعالیٰ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے اور وہ قانون یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو نعمت کسی گروہ یا قوم کو عطا فرماتا ہے، وہ اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک خود اُس گروہ یا قوم کے افراد اپنی حالت نہ بدل ڈالیں۔
بالفاظ دیگر علاّمہ اقبال نے مسلمانوں کو یہ سبق دیا ہے کہ تمھیں عروج صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب تمھاری زندگی کا ایک رخ تقدیر اور دوسرا رُخ تدبیر کا ترجمان ہو۔ تقدیر کے ساتھ تدبیر لازمی ہے اور تدبیر کے ساتھ تقدیر ضروری ہے۔ نہ تدبیر کو ترک کر کے تقدیر پر بھروسا کر کے بیٹھے رہنے سے کچھ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ مشیتِ الٰہی سے قطع تعلق کرکے محض تدبیر سے بات بن سکتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حکایاتِ اقبال ـــــــ تحریر و ترتیب محمد یونس حسرت ــــــــــــــ