امام ابو حنیفہ اور تصوف-مفتی امانت علی قاسمی

تصوف کی حقیقت اخلاق کی پاکیزگی اور باطن کی اصلاح، اپنا رشتہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرنا، دنیا سے بے رغبتی، آخرت کی فکر کرنا ، اپنی زندگی کو زہدوتقویٰ سے آراستہ کرکے رذائل سے اپنے آپ کو پاک وصاف کرنا ہے، تمام عبادات میں صفات حسن پیداکرنا اور منکرات سے نفرت پیدا کرناہے، انہی پاکیزہ صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کو احادیث میں احسان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن متعارف تصوف اور اس کا نام قرن اول اور قرن ثانی میں نہیں ملتا ہے، حدیث اور آثار صحابہ میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے، تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی اور کس طرح علم باطن اور تزکیہ نفس میں مشغول حضرات کو صوفیہ کہا جانے لگا؟اس سلسلے میں مشہور صوفی بزرگ ابو القاسم القشیری اپنی انتہائی مقبول کتاب ”الرسالة القشیریہ“ میں لکھتے ہیں:

جان لو، خدا تم پر رحم کرے کہ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی لیے ان کے زمانہ میں کوئی نام بڑی فضیلت والا سوائے صحبت رسول صلی الله علیہ وسلم کے نہیں رکھا گیا،کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور فضیلت نہیں،تب ان کو صحابہ کہا گیا اور جب دوسرے زمانے والوں نے ان کو پایا تو جن لوگوں نے صحابہ کی صحبت حاصل کی ان کا نام تابعین رکھا گیا اور ان کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی نام نہ تھا، پھر ان کے بعد والوں کو تبع تابعین کہا گیا، پھر مختلف قسم کے لوگ پیدا ہوئے اور ان کے مراتب میں فرق پڑ گیا،تب ان خواص لوگوں کو جنہیں دین کے کام میں زیادہ توجہ تھی زاہد، عابد کہا گیا، پھر بدعت ظاہر ہوگئی اور فرقوں کے مدعی پیدا ہوگئے، ہر ایک فریق نے دعویٰ کیا کہ ہم زاہد ہیں، تب اہل سنت کے خاص لوگوں نے جو خدا کے ساتھ اپنے نفسوں کی رعایت رکھنے والے اور اپنے دلوں کی غفلتوں سے حفاظت کرنے والے تھے اس نام کو چھوڑ کر اپنا نام اہل تصوف رکھا اور دوسری صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے ہی ان بزرگوں کے لیے یہ نام شہرت پاگیا۔(روح تصوف، اردو ترجمہ الرسالة القشیریہ ص: 27)

تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی؟
عہد صحابہ میں تصوف کی روح اور حقیقت، یعنی زہد وتقویٰ انابت الی اللہ، عاجزی وانکساری وغیرہ روحانی اور باطنی صفات تو پائے جاتے تھے، لیکن اس لفظ کا استعمال عہد صحابہ تک نہیں تھا، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے ابو الحسن بوشنجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ تصوف موجودہ زمانے میں صرف ایک نام ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور گذشتہ زمانے میں ایک حقیقت تھی جس کا کوئی (مخصوص) نام نہ تھا، یعنی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے وقت میں لفظ صوفی تو بے شک نہیں تھا ؛لیکن اس کی حقیقی صفات ان میں سے ہر ایک میں موجود تھیں اور آج کل یہ نام تو موجود ہے ؛لیکن اس کے معنی موجود نہیں، اُس زمانے میں معاملات تصوف سے آگاہی کے باوجود لوگ اس کے مدعی نہ ہوتے تھے؛لیکن اب دعوی ہے، مگر معاملات تصوف سے آگاہی مفقود ہے۔(گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب 74)

شیخ ہجویری کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تصوف کی حقیقت موجود تھی، لوگوں میں زہد وتقوی، خشوع وخضوع ، فکر آخرت اور خوف خدا جیسی صفات تھیں اور ان صفات کے متصف حضرات عابد اور زاہد کہلاتے تھے، لیکن تصوف کا لفظ اس وقت رائج نہیں ہوا تھا، مولانا جامی نے نفحات الانس میں لکھا ہے کہ پہلا شخص ،جو صوفی کہلایا ،ابو ہاشم تھا، جن کا انتقال 150ھ میں ہوا اور انہی کے رفقاء کے لیے فلسطین کے مقام رملہمیں ایک پہاڑی پر صوفیہ کی پہلی خانقاہ تعمیر ہوئی جو ایک زرتشتی آتش پرست امیر کی فیاضی کانتیجہ تھی۔ (نفحات الانس 31)

علامہ ابن تیمیہ صوفیاء کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں مختلف اقوال کو ذکر کرتے ہوئے قول فیصل ذکر کرتے ہیں ،نیز زاہد کو صوفی کب سے کہنا شروع ہوا ؟اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
زاہد کو صوفی کہنا دوسری صدی کے درمیان سے ہے، اس لیے کہ موٹے موٹے کپڑے زاہدوں میں زیادہ مستعمل ہوتے تھے اور جس نے یہ کہا کہ یہ صفہ کی طرف منسوب ہے، جس کی طرف بہت سے صحابہ منسوب ہیں اور ان کو اہل صفہ کہا جاتا ہے یا یہ صفا یا صف اول یا صوفہ بن مروان بن اوبن کا طانجہ یا صوفة الصفا کی طرف منسوب ہے تو یہ سب اقوال ضعیف ہیں۔(جلاء العینین ص:62)

سب سے پہلے صوفی کا لفظ کن کے لیے استعمال ہوا اور تصوف کی تعریف وشرح کس نے کی اور معارف ِتصوف کو کس نے پھیلایا اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
سب سے پہلے صوفی کانام ابو ہاشم الکوفی کو حاصل ہوا، یہ کوفہ میں پیدا ہوئے ا ور اپنی زیادہ زندگی شام میں گزاری اور150ھ میں وفات ہوئی اور سب سے پہلے تصوف کے نظریات کی تعریف وشرح ذوالنون المصری نے کی، جو امام مالک کے شاگرد ہیں اورسب سے پہلے جنید بغدادی نے تصوف کوجمع اور نشر کیا۔

امام صاحب اور تصوف
جیسا کہ ماقبل میں اس کی وضاحت کی گئی کہ تصوف کی حقیقت عہد صحابہ میں موجود تھی؛لیکن یہ نام نہیں تھا اور پہلی مرتبہ یہ لفظ 150 ہجری میں ابو ہاشم کے لیے استعمال کیا گیا، اس لیے امام صاحب کے ساتھ تصوف اور صوفی کا لفظ تلاش کرناایک غیر ضروری اور عبث عمل کہلائے گا، البتہ امام صاحب کی زندگی تصوف کی حقیقت سے بھر پور تھی اور تصوف کی اصل، صفت ِاحسان امام صاحب کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے،مفتی عزیز الرحمن بجنوری کے ایک مکتوب کے جواب میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب فرماتے ہیں:
متعارف سلوک تو صحابہ اور تابعین کے دور میں نہ تھا، ا لبتہ اصل ہرچیز کی وہاں ملتی ہے، ا س لیے امام صاحب کا سلوک بھی اسی نوع کا تھا جو نوع اس زمانے میں متعارف تھی، سلوک کے اہم اجزا ورع، خشوع، انابت الی اللہ، تجرد عن الخلق، تبتل الی اللہ، کثرت عبادت، کثرت ریاضت یہ سب ا جزاء امام صاحب کے سوانح میں بکثرت ملیں گے۔(مکتوب حضرت شیخ الحدیث بحوالہ امام اعظم ابو حنیفہ، مصنف مفتی عزیز الرحمن بجنوری ص:376)

حضرت شیخ الحدیث کی تحریر سے سلوک وتصوف کے اہم اجزا سامنے آگئے اور یہ کہ امام صاحب کی زندگی میں شریعت وطریقت کے صفات بوجو ہ اتم پائے جاتے تھے، ذیل میں ہم امام صاحب کے ورع وتقویٰ، خوف خدا، کثرت عبادت اور کثرت ریاضت کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔

کثرت عبادت
امام صاحب کے تذکرے میں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جن میں ا مام صاحب کی عبادت وریاضت کو بیان کیا گیا ہے، بعض واقعات اور معمولات کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے ،جو ہم سب کے لیے عبرت ونصیحت ہے۔

1…امام صاحب رمضان میں60 قرآن ختم کیا کرتے تھے، ایک دن میں، ایک رات میں۔(تاریخ بغداد 13/355)

2…امام زفر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے امام صاحب کو دیکھا کہ انہوں نے نماز میں صرف اس ایک آیت پر پوری رات گزاردی ﴿بل الساعة موعدہم والساعة أدہی وأمر﴾․(تاریخ بغداد13/356)

3…حضرت محارب بن دثار کہتے ہیں: میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ شب بیدار نہیں دیکھا۔

4…ابو عاصم نبیل کہتے ہیں :امام صاحب کو قیام صلاة اور کثرت عبادت کی وجہ سے میخ کہا جاتا تھا۔(تاریخ بغداد13/352)

5…سفیان بن عیینہ کہتے ہیں، ا یام حج میں مکہ معظمہ میں امام ابو حنیفہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا نہیں آیا۔

6…اسد بن عمر کہتے ہیں، امام صاحب نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، آپ اکثر ایک ہی رکعت میں قرآن مجید ختم کرتے تھے، ابن مبارک نے بھی اس روایت کی تائید کی ہے۔

7…ابو زایدہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے امام صاحب کے ساتھ ان کی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھی، جب سب لوگ چلے گئے تو میں ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا تو امام صاحب نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے، جب آپ اس آیت پر پہنچے ﴿فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَینَا ووقانَا عذابَ السَّمُومِ﴾ تو اسی کی تکرار فرماتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔(تاریخ بغداد13/355)

8…ابو مطیع کہتے ہیں ہم مکہ میں تھے اور جب کبھی رات میں طواف کے لیے جاتے تو ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کو طواف میں دیکھتے۔(تاریخ بغداد 13/ 352)

زہد وتقوی
یحییٰ بن سعید قطان کہتے ہیں، ہم ابوحنیفہ کی مجلس میں بیٹھتے اور ان سے استفادہ کرتے اور جب بھی ہم ان کی طرف دیکھتے تو ہم ان کے چہرے سے سمجھ جاتے کہ یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔(تاریخ بغداد 13/351)

عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں، میں کوفہ آیا اور کوفہ و الوں سے پوچھا سب سے زیادہ ورع وتقویٰ والے کون ہیں؟ تو لوگوں نے کہا ا بو حنیفہ خود ابن مبارک کا بیان ہے کہ میں نے ا بو حنیفہ سے زیادہ زہد وتقویٰ کسی میں نہیں دیکھا، حالاں کہ ان کو کوڑوں اورمال وزر کے ذریعہ آزمایا گیا۔(تاریخ بغداد13/357-356)

مکی بن ابراہیم کہتے ہیں ،میں نے کوفیوں کی مجالست اختیار کی؛ لیکن میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ متقی کسی کو نہیں دیکھا۔ (تاریخ بغداد 13/356)

حفص بن عبد الرحمن کو امام صاحب نے کپڑے کے تھان کا ایک گٹھٹر بھیجا اور فرمایا کہ فلاں تھان میں عیب ہے ،جب اس کو فروخت کرو تو عیب کو بیان کردو۔ حفص بن عبد الرحمن نے وہ کپڑا فروخت کردیا اورعیب بیان کرنا بھول گئے، جب امام صاحب کو معلوم ہوا تو بہت پریشان ہوئے اور پورے کپڑے کی قیمت کوصدقہ کردیا۔(تاریخ بغداد13/356)

بیعت وصحبت
تصوف کے باب میں صحبت کو بڑا دخل ہے، اگر یہ حاصل نہ ہو تو شاید کچھ بھی حاصل نہ ہو، اسی صحبت کی وجہ سے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ ورضوا عنہم کے اعزاز کے مستحق ہوئے اور یہی اعزاز حضرات تابعین کو ملا ، والذین اتبعوہم بإحسان، اسی صحبت کی بنا پر حضرت ابو بکر صدیق مقام صدیقیت پر فائز ہوئے اور اسی فیضِ صحبت وجہ سے حضرت ابوذر کو مقام جذب وفنا حاصل ہوا، غرضیکہ صحبت کو تبدیل احوال اور تربیت اخلاق میں بڑا دخل ہے۔

حضرت امام ابو حنیفہ اسی مبارک زمانہ (خیر القرون) 80ھ میں پیدا ہوئے اور اسی میں پلے بڑھے ،اسی دور میں وفات پائی اس لیے حضرات صحابہ کی صحبت اور ان کی ملاقات، اسی طرح جلیل القدر تابعین کی صحبتیں اور ان کی ملاقات سے آپ کو حظ وافرملا تھا، انہی قدسی صفات حضرات کی صحبتوں نے امام صاحب کی زندگی کو زہد وتقویٰ اور کثرت عبادت وریاضت سے معمور کردیا تھا۔

امام جعفر صادق کی صحبت میں
حضرت داتا گنج علی ہجویری فرماتے ہیں کہ امام صاحب طریقت میں ا مام جعفر صادق کے خلیفہ اورمجاز ہیں، حضرت امام اعظم نے سلوک وطریقت کے مراحل امام جعفرصادق سے دو سال میں طے کیے، پھر آپ نے فرمایا: لولا السنتان لہلک النعمان اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا، یعنی اگر میں دوسال تک امام جعفر صادق کی خدمت میں نہ رہتا تو اصلاح باطن سے محروم ہوجاتا، تحفہٴ حنفیہ کے مصنف نے لکھا ہے کہ جب امام صاحب کے والد ثابت نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی اس وقت آپ بہت کم سن تھے، آپ کی والدہ ماجدہ نے امام جعفر صادق سے نکاح کرلیا ااس طرح ا مام صاحب کو جعفر صادق کی نگرانی میں پرورش پانے کا موقع نصیب ہوا اور آپ نے ان سے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کیے۔(تحفہٴ حنفیہ ص: 271)

مفتی ابوالحسن شریف الکوثری نے اپنی کتاب ”امام ابو حنیفہ شہید اہل بیت“ میں لکھا ہے کہ مولانا ابوالوفاء افغانی کے ایک شاگرد نے ان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ طریقت میں امام جعفر صادق کے مجاز وخلیفہ ہیں اور پھر داوٴد طائی امام صاحب کے مجازو خلیفہ ہیں۔(امام ابو حنیفہ، شہید اہل بیت ص 86)

شیخ ہجویری نے اگر چہ امام صاحب کو امام جعفر کا خلیفہ ومجاز قرار دیا ہے؛ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ خلافت واجازت کی تصوفانہ اصطلاح بعد کی رائج شدہ ہے، امام صاحب کے عہد تک تصوف ایک فن کی حیثیت سے دیگر علوم اسلامی سے علیحدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے اس کی اصطلاحات بھی بعد کی پیداوار ہیں، لہٰذا خلافت واجازت سے نوازنااس عہدمیں نہیں تھا؛بلکہ شیخ کی صحبت میں رہ کر اصلاح باطن کی طرف توجہ دی جاتی تھی

Source: http://www.farooqia.com/ur/lib/1437/03/p60.php