مو لا نا محمد امجد خان
اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے جہا ں پر یہ حقوق اللہ کادرس دیتا ہے وہیں یہ حقوق العباد پر بھی زور دیتا ہے۔ حقوق العباد کے معا ملے میں یہ اتنا حساس ہے کہ حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ چاہیں تو معاف فر مادیں گے لیکن حقوق العباد اس وقت معاف نہیں ہو سکتے جب تک وہ بند ہ خود معاف نہ کر دے جس کے حقوق تلف کئے گئے ۔اسلام حقوق العباد میں نہ صرف اپنے ماننے والوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے بلکہ دیگر مذاہب کے لو گوں کو بھی امن وسلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ نبی رحمت حضورؐ کا خطبہ حجتہ الوداع جو انسانی حقوق کے لیے عالمی منشور ہے اور ایک ایسا منشور ہے کہ اس سے پہلے نہ ایسا منشور کسی نے دیا ہے اور نہ اس کے بعد کوئی دے سکتا ہے۔ یہ منشور اسلامی ریاست کی بنیادی کڑی ہے جس میں رہنے والے باشندے دو حصوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک وہ جو اسلام کے ماننے والے ہیں یہ مسلمان کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کو مانتے ہیں جیسے مسیحی ،یہود،ہنود،سکھ وغیر ہ ان کو ذمی کہا جاتا ہے یا ان کو اقلیت سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دین اسلام کے ما ننے والوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان حقوق کا خیال بھی رکھا فاتح بن کر جب مسلمان کسی ملک میں داخل ہو ئے تو انہوں نے نہ صرف ان لو گو ں کی عبادت گا ہوں کا خیال رکھا بلکہ ان کے گھروں اور ان کے جان ومال ،عزت وآبرو اور ان کی زرعی زمینوں کے تحفظ کو بھی مقدم جا نا۔ دین اسلا م نے اپنے ماننے والوں پر ابتدا ء ہی سے یہ واضح کر دیا جو بھی غیر مذہب تمھارے مقابلے پر نہ آئے اور تمھارے خلاف سازشیں نہ کرے اور تمھارے دشمنوں کا ساتھ نہ دے اور تمھیں نقصان پہنچانے میں ملوث نہ ہو اور تمھارے ساتھ معاہدے کے مطابق پا سداری کرتے ہوئے امن وآشتی سے رہے تو اس کی عزت وآبرو ،جان ومال اور املاک کاتحفظ تم پر ایسے ہی فر ض ہے جیسے ایک ادنی مسلمان کی جان ومال ،عزت وآبرو کا تحفظ ہے۔ اگر تم ذرہ برابر بھی فر ق کرو گے تو کل تمھیں اللہ تعا لی کی عدالت میں جواب دینا ہو گا حضور پا ک ؐ نے تو یہاں تک اپنے ماننے والوں کو فر ما یا کہ کسی بوڑھے پر ،عورتوں پر،بچوں پر حتیٰ کہ وہ شخص جس کے قبیل کے لوگ تم سے مقابل ہوں اور وہ تمہارے خلاف میدا ن میں نہ آئیں تو ان پر تمھیں ہاتھ اٹھا نے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اپنی عبادت گاہ میں عبادت میں مصروف ہو تو اس پر بھی تم ہتھیا ر نہیں اٹھا سکتے ۔اگر تم فاتح بن جا ئو تو پھربھی ان لو گوںکی عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچانے ، کھیتیوں اور پھل دار سر سبز وشاداب درختوں کے کاٹنے سے بھی میں(خدا کا پیغمبر) تمھیں منع کر کے جا رہا ہوں۔ حا لت جنگ میں ہر حریف کی کوشش ہو تی ہے کہ دو سرے حریف کو زیا دہ سے زیاد ہ نقصان پہنچائے لیکن نبی دوعالم ،مجسمہ رحمتؐ ، حا لت جنگ میں بھی صحابہ کرام ؓ کو جو ہدایات دے رہے ہیں وہ انسان تو انسان چرندوں پرندوں کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔کوئی جر نیل بھی اپنی فو ج کو ایسی ہدایات نہیں دیتا جو سر کار دو عالمؐ نے صحابہ کرام ؓاور اپنے ماننے والوںکو دی ہیں۔ یہ تعلیمات سب کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد جس کا ذکر قر آن مجید کے تیسرے پارے میں آیا ہے ۹ھ میں جب مدینہ منورہ میں سر کار دوعالمؐ کی خد مت میں حاضرہو ا جو کہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا نبی پاکؐ نے نہ صرف ان کو مسجد نبوی میں ٹھہر ایا بلکہ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ خود بھی ان کی خاطر مدارت کی۔ سیرت ابن ہشام میں یہاں تک لکھا ہے جب حضور پاکؐ نے صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ نماز عصر ادا کر لی تو اس وفد کے ایک سردار ابوحارثہ علقمہ نے حضور پاکؐ سے اپنی عبادت کے ادا کر نے کی اجازت مانگی آنحضرتؐ نے ان کو منع نہیں کیا اور خوش دلی سے اجازت دے دی۔
چنانچہ انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت کی تاریخ آج تک ایسا تاریخی واقعہ پیش کر نے سے قاصر ہے ۔خلیفہ دوم ،مرادپیغمبر سید نا حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بلا کر اس کی وجہ پو چھی تو اس یہودی نے جواب میں کہا کہ امیر المومنین ؓ ! کوئی کام میں اس عمر میں کر نہیں سکتا اور معاہدے کے مطابق مجھے جزیہ بھی دینا ہے کیونکہ میں ایک اسلامی ریاست کا باشندہ ہو ں اور اسلامی ریاست بھی میرے حقوق کا تحفظ اسی طرح کرتی ہے جیسے ایک مسلمان فرد کے حقوق کا کرتی ہے چنانچہ جزیہ ادا کر نے کے لئے بھیک مانگتا ہو ں ۔حضرت عمر ؓ نے جب اس بوڑھے غیر مسلم کے الفاظ سنے تو آپ نے شوریٰ کو بلا یا اور متفقہ طور یہ فیصلہ فر ما یا کہ آج کے بعد کسی بھی بوڑھے غیر مسلم سے جزیہ نہیں لیا جا ئے گا اور اس کی ادائیگی سے وہ بری ہو گا ۔تاریخ الخلفا ء میں علامہ سیو طیؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ فتح بیت المقدس کے مو قع پر حضرت عمر ؓ جب مدینہ منورہ سے شام کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں نماز کا وقت ہو گیا قریب ہی گر جا گھر تھا گر جے گھر کے پادری نے آپ کو وہیں پر نماز ادا کر لینے کا کہا لیکن حضرت عمر ؓ یہ کہہ کر فوراً باہر تشریف لے آئے کہ اگر آج میں یہاں پر نماز ادا کر لوں تو بعد میں آنے والا ہر فاتح نہ صرف غیر مذہب کی عبادت گاہوں کو مسجد میں تبدیل کر دے گا بلکہ وہ اس کو عمرؓ کا عمل بھی سمجھ لے گا۔ جبکہ ہمارا مذہب ہمیں کسی کی عبادت گاہ کو بھی چھیڑنے کی اجازت نہیں دیتا ۔عمر ثانی حضرت عمر بن عبد العزیزکے نام سے کو ن واقف نہیں جن کو اپنوں تو اپنوں دیگر مذاہب والوں نے بھی خراج تحسین پیش کیا آپ کے دور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے جس طرح کے اصول دین اسلام کی روشنی میں وضع کئے گئے وہ تاریخ کا لا زوال حصہ ہیں ۔مکمل مذہبی آزادی دی گئی ،اوقات عبادت کا خاص خیال رکھا گیا تجارتی منڈیوں تک رسائی دی گئی اور ان کے مذہبی تہواروں اور رسوما ت کو ریاست کے اصولوں میں رہتے ہوئے شہریت کا درجہ دیا گیا ۔فاتح سندھ مجا ہد اسلام محمد بن قاسم جب سندھ فتح کر کے واپس جا نے لگے تو یہاں کہ غیر مذہب باشندے ان کی واپسی پر رورہے تھے اور یہ جملہ ان کی زبان پر تھا کہ محمد بن قاسم کے دور میں ہمیں جو سکون میسر ہوا تھا وہ اپنے حکمرانو ں نے کے دور میں بھی نصیب نہ ہو سکا ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کی وفات پر اپنے تو اپنے غیر بھی روپڑے اور کہہ رہے تھے کہ آج صرف مسلمان نہیں بلکہ ہم ایک مثالی حکمران سے محروم ہو گئے ہیں ۔الفاروق میں علامہ شبلی نعمانی نے یہاں تک لکھا ہے کہ ایک بار ایک محاذ پر مسلمانوں کو فوج کی ایک کمک کی ضرورت پڑی تو باہمی مشورے سے اس علاقے کی فوج کا انتخاب کیا گیا جو غیر مذاہب کی حفاظت پر مامور تھی۔ حضرت عمر ؓ نے ان علاقے والوں کا جزیہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ جب ہم آپ کی حفاظت پر مامور فوج ایک ضرورت کے تحت واپس بلا رہے ہیں تو ہمیں جزیہ لینے کا حق نہیں پہنچتا ہے۔ کیا آج تک ایسے انصاف کی مثال ممکن ہو گی؟ مسلمانوں کے مذہب اسلام کے خلاف ہر دور میں اشتعال انگیز لٹریچر شائع ہو ا اور معاذاللہ قر آن مجید کو جلانے اور حضور نبی کر یم ؐ جیسی عظیم اور مقدس ہستی کے خاکے شائع کر نے کی نا پاک اور مذموم جسارت کی گئی لیکن امت مسلمہ نے اس کے بدلے میں کسی دوسرے شخص ،گروہ یا جماعت کو نشانہ نہیں بنا یا اور نہ ہی کسی گر جے یا کنیسے کو نقصان پہنچا یا بلکہ اس اصول کو مدنظررکھا کہ سزاء صرف اس شخص کو دی جا ئے جو مجرم ہے نہ کہ ان لو گو ں کو جو مجرم کے خاندان ،قوم ،قبیلے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔سیرہ اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کا ایک پڑوسی جو کہ غیر مسلم تھا ہر وقت آپ کو ایذا دینے کی کو شش کرتا تھا یہاں تک کہ گھر کا سارا کوڑا کرکٹ جمع کر کے رات کو آپ کے گھر میں پھینک دیتا صبح اٹھ کر آپ کو صفائی کرنی پڑتی۔ چنددن گذرے وہ نظر نہ آیا امام اعظم نے اس کے بارے میں جب پو چھا تو بتا نے والوں نے بتا یا کہ کسی قرض کے سلسلے میں اس کو پو لیس پکڑ کر لے گئی ہے امام اعظم سیدھے قرض خواہ کے پا س پہنچے اور اس کا قر ض ادا کیا اور اس کو جیل سے رہا کر واکر لے آئے اور فر ما یا غیر مذہب ہے تو کیا ہے پڑوسی بھی تو ہے، میں نے تو پڑوس کا حق ادا کیا ہے پا کستان میں بسنے والے اقلیتی بھی ہمارے ہم وطن ہیں ہمیں ان کا حق بھی ادا کر نا چاہیے ان کی یہ بات قابل ستائش ہے کہ انہو ں نے ہمیشہ پا کستانی ہو نے کا ثبوت دیا ہے اور پا کستانیوں نے بھی ان کو اپنا ہم وطن سمجھا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔