مدارس میں بچوں ، طلبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعات

مدارس میں بچوں ، طلبہ کے ساتھ زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں تو ان پر تنقید ہوتی ہے۔ یہ درست رویہ ہے، ہممیں ہر جگہ ایسا سسٹم بنانا چاہیے کہ بچوں ، لڑکوں کو اس زیادتی سے بچایا جا سکے۔ لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ہاں شہری، قصباتی، دیہاتی تینوں قسم کے سماج میں بچوں، نوعمر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں، شائد ہزاروں ممکن ہے سالانہ لاکھوں میں۔کیا ہمیں معلوم نہیں ہے یا اتنی جرات نہیں کہ کھل کر بات کی جا سکے؟کیا بعض مخصوص معاشروں میں خوبصورت نوعمر لڑکے بطور رکھیل رکھنے کا رواج ہے۔ یہ لختئی کس کیٹیگری میں آتے ہیں ؟کیا بعض شہر خلاف وضع فطری عمل اور نوعمر خوب رو لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی وجہ سے بدنام نہیں؟ بنوں ، لکی ، ڈی آئی خان ، ٹانک وغیرہ اور بعض دیگر شہروں کے حوالے سے اتنے لطیفے کیوں مشہور ہوئے؟ پشاور خود بے شمار ایسے زومعنی لطائف کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس قدر مشہور کہ سٹیج ڈراموں میں تو عام اس حوالے سے جگتیں لگائی جاتی ہیں بلکہ کبھی ٹی وی ڈراموں، فلموں میں بھی یہ زومعنی حوالہ مل جاتا ہے۔ خود پنجاب کے بہت سے شہر بدنام ہیں۔ ہمارے تونسہ کے دوست خود اپنے شہر کے حوالے سے بہت سی ان کہی کہانیاں، لطائف بیان کرتے ہیں۔ یہ کیا ہیں؟جبری، ترغیب کے ساتھ یا کسی بھی حیلے ، حربے کے ساتھ بچوں، لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے ان گنت واقعات ہوتے ہیں۔ نوے فیصد سے زیادہ رپورٹ نہیں ہوتے ۔ قصور کا سکینڈل اتفاق ہی سے سامنے آیا۔ ظلم تو یہ تھا کہ اس کیس میں جن بچوں سے زیادتی ہوئی اور ان کی ویڈیوز بنیں، بعد میں انہوں نے خود دوسروں بچوں سے زیادتی کی اور ان کی ویڈیوز بنائیں۔ ایسے بہت سے سکینڈل نجانے کتنے شہروں، قصبات، دیہات میں پنپ رہے ہیں، سامنے نہیں آتے۔یہ معاملہ کسی خاص شہر ، لسانی قومیت یا برادری کے حوالے سے نہیں، اسے کسی عصبیت کا نشانہ نہیں بنانا چاہتا۔ ہر صوبے، تقریبا ہر شہر میں کچھ نہ کچھ ایسا ہے۔ سنٹرل پنجاب ، ساوتھ پنجاب ہر جگہ یہ ہے۔ سرائیکی علاقے بھی اس حوالے سے بدنام ہیں اور اس میں سرائیکی ، پنجابی کسی کی کوئی قید نہیں۔اپنے آبائی شہر کی بات کروں تو وہاں بھی اس قبیح فعل کرنے والوں کی کمی نہیں رہی، بہت سے ایسے بدنام لوگوں کے بارے میں جانتے ہیں جن کی شہرت یہی تھی اور ہم لڑکپن میں ایسے منحوسوں کو دور سے دیکھ کر ہی گھروں میں دبک جاتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں خوبصورت ، پیارے بچوں اور نوعمر لڑکوں (چودہ ، پندرہ سولہ سال تک کبھی اس سے بھی سال دو زیادہ تک) کی لڑکیوں کی طرح ہی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے والد صاحب بے حد سخت تھے، مغرب کے بعد گھر سے نکلنے نہ دیتے اور سکول سے گھر کی روٹین موجود تھی۔ آج سوچتا ہوں کہ ہماری حفاظت کے لئے وہ اتنے سخت اور متردد رہتے۔ آج اپنے بچوں کے حوالے سے بھی اتنے ہی محتاط اور خبردار رہتے ہیں، اللہ سے ان کی حفاظت کی دعا بھی مانگتے ہیں کیونکہ یہ خطرہ کہیں بھی موجود ہے۔ چند دن پہلے پرانے دوستوں کی ایک محفل میں شہر کے ایک فٹ بالر کے مرنے کی خبر ملی، مرحوم اس حوالے سے بہت بدنام تھا ، خود اس کے اپنے بیان کے مطابق درجنوں لڑکوں کے ساتھ اس سے زیادتی کی ، وہ کسی خاص تکنیک سے لڑکے کی گردن دباتا جس سے وہ بے ہوش ہوجاتا اور زیادتی کرنا آسان ہوجاتا۔ شہباز شریف کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کی پہلی ملازمت احمد پورشرقیہ میں بطور اسٹنٹ کمشنر کے ہوئی، انہی دنوں ایک بلدیہ سکول کے ٹیچر کے بیٹے کے ساتھ اس بدبخت نے زیادتی کی، ڈاکٹر توقیر شاہ نے اس ٹیچر کو بلایا اور کہا کہ تم حوصلہ کرو، بعدمیں سمجھوتا نہ کر لینا تو میں اس بدمعاش کو کیفرکردار تک پہنچاتا ہوں۔ وہ شخص گرفتار ہوا، مقدمہ چلتا رہا، قید میں دو تین سال رہا، بعد میں توقیر شاہ کا تبادلہ ہوا اور وہ فٹ بالر باہر آگیا۔ اب دنیا سے چلا گیا ہے لیکن ان شااللہ اپنے کرتوتوں کی سزا بھگت رہا ہوگا۔ ایسے کیسز، ایسے لوگ جگہ جگہ ہیں۔دعوے سے کہتا ہے کہ ہر خوبصورت لڑکے کو کسی نہ کسی جگہ پر ہراسمنٹ کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ گھر والے سخت ہیں، وہ خود محتاط ہے ، اللہ کا کرم ہوا تو عزت محفوظ رہتی ہے مگر گھورتی بھوکی نظروں اور گاہے لفظی ہراسمنٹ کا سامنا اسے کرنا ہی پڑتا ہے۔افسوس تو یہ کہ ہم ان ایشوز پر کبھی کھل کر بات نہیں کرتے ۔ ان کا سدباب کرنےکی کوشش نہیں کرتے۔ اس حوالے سے سزائوں کو مزید سخت بنانا ہوگا، جبریہ فعل کرنے والوں کو پھانسی سے کم سزا نہ ہو اور صرف چند ماہ میں فیصلہ ہونا چاہیے، جو ترغیب سے بھی یہ فعل کریں،انہیں بھی سخت ترین سزا ملنی چاہیے کہ بیشتر کیسز میں متاثر مائنر یعنی نابالغ ہی ہوتا ہے، ویسے تو بالغوں کا یہ فعل بھی قابل سزا ہے ۔ ڈی این اے لیبارٹریز کی تعداد بڑھنی چاہیے، یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس ظالم کو پکڑا جا سکتا ہے، ورنہ ایسے کیسز کو ثابت کرنا مشکل ہے۔ ہمارے بعض پختون لکھنے والے بطور مزاح ان واقعات کا ذکر کرتے ہیں، اس سے بھی گریز کرنا چاہیے ۔ ایسے زیادتی کے واقعات غلط، ظلم اور خوفناک سزا کے قابل گناہ ہے۔ اس کے خلاف رائے عامہ بھی ہموار کرنی چاہیے۔یہ صرف کسی خاص مولوی، قاری یا سکول ٹیچر کا معاملہ نہیں بلکہ ہمارے سماج کا اہم سلگتا ایشو ہے۔ اس پر جرات سے لکھنا چاہیے ۔پس نوشت :ایک پہلو رہ گیا، بعد میں خیال آیا۔ ایک طبقہ غربت، محرومی کی بنیاد پر اس مسئلے کا شکاربنتا ہے۔ ورکشاپوں میں کام کرنے والے لڑکے، ہوٹلوں میں کام کرنے والے چھوٹے یعنی دس بارہ چودہ سال کے بچے۔ بہت سے ایسے جن کے وارث بھی کوئی نہیں، وہ ہوٹلوں ہی میں سوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اخبارات میں بلوچستان کے کان کنی مزدوروں کے بھی خوفناک واقعات شائع ہوے۔ مزارات پر چرس، افیون پینے والے ملنگوں کا جنسی استحصال اپنی جگہ۔ غرض اس کی بہت سی پرتیں بے شمار پہلو ہیں۔ ہر ایک پر بات ہونی چاہیے


عامر خاکوانی