شیخ الاسلام امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463ھ) کہتے ہیں :
قال أبو عمر: كان شرحبيل بن السمط على حمص فلما قدم جرير على معاوية رسولاً من عند علي رضي الله عنه حبسه أشهراً يتحير ويتردد في أمره فقيل لمعاوية: إن جريراً قد رد بصائر أهل الشام في أن علياً ما قتل عثمان ولا بد لك من رجل يناقضه في ذلك ممن له صحبة ومنزلة ولا نعلمه إلا شرحبيل ابن السمط فإنه عدو لجرير. فاستقدمه معاوية فقدم عليه فهيأ له رجالاً يشهدون عنده أن علياً قتل عثمان منهم بسر بن أرطأة ويزيد بن أسد جد خالد بن عبد القسري وأبو الأعور السلمي وحابس بن سعد الطائي ومخارق بن الحارث الزبيدي وحمزة بن مالك الهمداني قد واطأهم معاوية على ذلك فشهدوا عنده أن علياً قتل عثمان فلقي جريراً فناظره فأبى أن يرجع. وقال قد صح عندي أن علياً قد قتل عثمان ثم خرج إلى مدائن الشام يخبر بذلك ويندب إلى الطلب بدم عثمان وله قصص طويلة وفيها أشعار كثيرة ليس كتابنا هذا موضوعاً لها وهو معدود في طبقة بسر بن أرطأة وأبي الأعور السلمي
شرحبیل بن السمط حمص میں (اس وقت معاویہ رض کا) گورنر تھا پھر جیسے ہی جریر رض معاویہ رض کے پاس علی رض کی طرف سے بطور پیغام رساں آئے، اس کو دو ماہ کے لیے قید کرلیا گیا اور معاویہ اس کے معاملے میں پریشان اور متردد تھے۔ معاویہ سے کہا گیا :
جریر نے تمام اہل شام کی اس رائے کو بدل دیا ہے کہ علی نے عثمان کو شہید کیا اور آپ کی طرف سے بھی کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے، جو جریر کی اس بات کا رد کرسکے ساتھ میں وہ (جریر کی طرح) صحابی بھی ہو اور اس کی قدر ومنزلت بھی ہو اور ہم سوائے شرحبیل کے کسی اور ایسے شخص کو نہیں جانتے اور وہ جریر کا دشمن بھی ہے۔
امیر معاویہ نے شرحبیل کو بلایا اور وہ ان کے پاس آگیا اور پھر اس کے ارد گرد ان لوگوں کو جمع کیا گیا جو اس کو اس بات کی شہادت دیں کہ علی رض نے ہی عثمان رض کو قتل کیا ہے جس میں بسر بن ارطاہ ، یزید بن اسد، ابو الاعور السلمی، حابس بن سعد، مخارق بن حارث، حمزہ بن مالک شامل تھے اور معاویہ رض ان لوگوں کے ساتھ پہلے ہی اس بات پر خفیہ اتفاق کرلیا تھا (کہ وہ اس کے سامنے علی کو عثمان کے قتل کا ذمے دار ٹھہرائیں گے) پس انہوں شرحبیل کے روبرو یہ گواہی دی کہ عثمان رض کا قتل علی رض نے ہی کیا ہے۔ اور پھر وہ جریر سے ملا اور جریر سے مناظرہ کیا مگر جریر نے اپنے موقف سے مکر جانے سے انکار کردیا۔ مگر شرحبیل بضد رہا کہ میرے نزدہک اب یہی بات درست ہے کہ علی رض نے ہی عثمان کو قتل کیا ہے اور پھر شام کے مخلتف شہروں میں اس بات کی خبر دینے چلا گیا اور لوگوں کو قصاص عثمان رض پر آمادہ کرتا رہا اس بارے میں اس کے بہت طویل واقعات اور اشعار ہیں ہماری کتاب کا یہ موضوع نہیں۔ اور یہ شرحبیل بن السمط بسر بن ارطاہ اور ابی الاعور السلمی کی قبیل میں سے ہے۔
(الاستيعاب)
1۔ یاد رہے امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کوئی بلا تحقیق تاریخ کی کتاب سے بات نقل نہیں کر رہے بلکہ اپنی تحقیق خود قلمبند کر رہے ہیں جو ان کا اپنا قول اور ان کے نزدیک ثابت ہے۔
2۔ جب ساتیوں صدی ہجری کے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی صحابہ کرام کے بارے میں تحقیق کہ فلاں فلاں صحابہ نے شرکت نہ کی وغیرہ قابل قبول ہے تو پھر ان سے صدیوں پہلے فوت ہونے والے حدیث وفقہ کے امام کی بات بالاولی مقبول ہے۔
3۔ یہ امام ابن عبدالبر کی اپنی تحقیق ہے اگر اس سے رافضیت یا گستاخی ثابت ہوتی ہے تو برائے مہربانی ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھنے سے گریز کریں۔
کاشف خان
۔۔۔۔
رسول الله صلی الله علیہ والہ وسلم کو کونسی ہستی سب سے محبوب تھی؟ صحیح احادیث کی روشنی میں – انجنیئر محمد علی مرزا کا ایمان افروز بیان
افضل کون؟ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ یا حضرت علی مرتضی کرم الله وجهه؟ اہلسنت کا عقیدہ کیا ہے؟ ناصبی اور خارجی کیا کہتے ہیں؟
حضرت پیر نصیر الدین نصیر گولڑہ شریف کا بیان
۔۔۔