الف انار ۔ ب بکری

میں نے پہلا باتصویر قاعدہ الف انار ب بکری پڑھا تھا اور ایسے ادارے میں پڑھا تھا جس کے مالک و مختار ایک عالمِ دین تھے۔ وہ عالمِ دین محض ظاہری وضع قطع کے اعتبار سے “مولوی “نہ تھے کہ ان کا گھرانہ توکئی پشتوں سے دین کی خدمت کرتا چلا آ رہا تھا، اس لیے وہ اصلاً اپنے بہت اندرون میں ٹھیٹھ ملا تھے۔میری پرائمری ایجوکیشن کے برسوں بعدجب سوویت یونین زوال پذیرہوااور مغربی دنیا نے موقع غنیمت جان کر میڈیا وار کے ذریعے اسلام کو” بنیاد پرستی”کے نعرے تلے دبا دینا چاہا، تو مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شرمندہ سی چپکی بیٹھی بزبانِ حال کہتی پائی گئی کہ نہیں نہیں ہم بنیاد پرست نہیں ہیں ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اہلِ مغرب اس سےقرآن مجید کو خداکا آخری کلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی لینا مراد لیتے ہیں، ایسے میں حبیب کالج گوجرانوالہ کے پرنسپل نے اپنے دفتر کے باہرفوراً ایک نیا بورڈ آویزاں کر دیا، جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ـــــــــــ بنیاد پرست ملا فورم – – – اس فورم کے تحت انہوں نے پرامن پبلک واکس کا بھی اہتمام کیا۔

آپ اسے ردِ عمل کہیے یا جو بھی کہیے لیکن ایک بات حیرت انگیز ہے کہ نرسری کا قاعدہ وہی الف انار ب بکری والا رہا۔ غالباً وہ بنیاد پرست عالمِ دین جانتے تھے کہ ردِ عمل کہاں کتنا اور کیسے ظاہر کرنا ہے۔ نہ تو انہوں نے برسوں پہلے الف اللہ اور ب برکت اللہ کے نام سے دین کے احیا کی کوشش کی اور نہ اس وقت جب وہ باقاعدہ ردِ عمل پراترآئے تھے الف اللہ ب بندوق ت توپ اور ج جہاد وغیرہ کی طرز پرکوئی نیا قاعدہ اپنے ادارے کی نرسری کلاس کے لیے جاری کیا۔

میری پرائمری ایجوکیشن کا باقی نصاب بھی ایسا ہی تھا ، اس میں بیمار مذہبیت کہیں موجود نہیں تھی۔ بنیاد پرست مولوی صاحب (نجانے کیوں اور کیسے) کسی بھی اعتبارسے سطحی دینی جذبے کے یرغمال نہیں بنے۔یہی وجہ ہے کہ ٹھیٹھ روایتی ملا ہونے کے باوجود ان کے ادارے کے طلبا و طالبات کسی بھی قسم کا تعصب یا منفی سوچ لے کر نہیں نکلتے تھے۔ ہر مسلک کے لوگ (شیعہ سنی اہلِ حدیث دیوبندی بریلوی وغیرہ) نیز مسیحی اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے اس خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے بچے داخل کراتے تھے کہ اس ادارے میں دین کے احیا یا تجدید کے نام پر اپنے مخصوص نظریات مسلط کرنے کی کوئی کوشش ہو گی۔ یہی صورتِ حال مختلف برادریوں اور طبقات کی تھی۔ ہاں البتہ صبح اسمبلی میں اقبال کی دعا —- لب پہ آتی ہے ۔ ۔ ۔ اورقومی ترانہ ضرور ہوتا تھا۔ نظم وضبط مثالی تھا، بچوں کی تربیت اور اخلاق پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا۔ پھر یہ کہ بچوں میں مساوات قائم تھی، کسی طبقے برادری مسلک سے تعلق کو بالکل خاطرمیں نہیں لایا جاتا تھا، سچ یہ ہے کہ خاطرمیں لانے کا خیال تک موجود نہ تھا۔

پچھلے دو عشروں سے تعلیم کے نام پر ہونے والے انتہائی فضول مباحث کے طومار اور اس کے نتائج دیکھتے ہوئے ، الف انار ب بکری کے مذہبی معترضین سے گزارش کروں گا کہ انار کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اور انبیا نے بکریاں چرائی ہیں۔ الف انار ب بکری کے سائنسی معترضین سے عرض کروں گا کہ الف انار باٹنی کا آغازہے اور ب بکری زوآلوجی کا ابتدائیہ۔ یقین جانیے کہ ہمیں اگر بااخلاق با کردار پُر عزم مہم جُو نئی نسل تیار کرنی ہے تو الف انار ب بکری کی طرف لوٹنا ہو گا کہ اس میں مذہب وسائنس کا دلکش امتزاج ہے۔ حق تو یہ ہے کہ باقی نصاب بھی اسی طرح امتزاجی بنائے بغیر ہم اس کرہ ارض پرانسانوں کی طرح نہیں جی سکتے۔ مذہبی تقدس یا سائنسی ترقی کے نام پر ہم جو بھی نصاب تشکیل دے لیں، وہ جلد یا بدیر ہمیں ایک دوسرے کے بلکہ خود اپنے مقابل کھڑا کر دے گا۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ فرد ہو یا گروہ ، ان میں سے کوئی بھی یک رُخا ہو کر، تخصص کے پُر فریب علمی عنوان تلے بھی ، کامیابی و کامرانی سے محروم ہی ٹھہرے گا اگر امتزاج و موزونیت اور تناسب و توازن کو جھٹلائے گا۔

________________ انعام الرحمٰن