اللہ سے گلہ شکوہ

یو ٹیوب پر ایک عرب شیخ ہیں جو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں. ایک گفتگو میں وہ بتاتے ہیں کہ ایک عمل میں نے سینکڑوں لوگوں کو بتایا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کا مسئلہ حل نہ ہوا ہو. ایسے مسائل جنہیں لوگ نا ممکن سمجھتے تھے، وہ بھی حل ہو گئے. پھر انہوں نے اپنے ایک دوست کا واقعہ بتایا کہ ان کی بیٹی جو اعلی تعلیم و اخلاق کی حامل تھی، اس کا شوہر اسے روزانہ یا ہر دوسرے تیسرے روز مارتا تھا اور وہ بہت پریشان تھے. مجھے کہا کہ

آپ اسے سمجھائیں

میں نے کہا، دو صورتیں ہیں

کہو تو میں اسے سمجھا دیتا ہوں، ممکن ہے سمجھ جائے، ممکن ہے ردعمل میں زیادہ شدت پسند ہو جائے

دوسرا طریقہ میرا آزمودہ ہے، اس میں کبھی ناکامی نہیں ہوتی

میں نے ان کے کہنے پر دوسرا طریقہ بھی بتا دیا

عمرہ کرنے جاؤ

وہاں جاکر اللہ سے گلہ شکوہ کرو کہ میرے ساتھ یہ ہو رہا ہے اور میں بے بس ہوں، تو ہی نظر کرم فرما.

وہ صاحب چلے گئے، جاکر عمرہ کیا، دعا کی. روئے دھوئے شکوہ شکایت کی

واپس ہوٹل پہنچے تو بیٹی کا پیغام تھا کہ مجھے فون کریں

پریشان ہوگئے کہ نہ معلوم کیا سننے کو ملے

فون کیا تو بیٹی نے بتایا کہ

رات کے آخری پہر میرا شوہر آیا اور

اپنی تمام زیادتیوں کا اعتراف کر کے رو رو کر مجھ سے معافی مانگتا رہا اور آئندہ کے لئے حسن سلوک کا وعدہ کیا.

یہ پروگرام سن کر مجھے یاد آیا کہ

ایک بار حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ سے گلہ کیا تھا

إنما اشکو بثی و حزنی الی اللہ

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ یوسف کی قمیض پہنچ گئ

دوسری بار رسول امین نے طائف کے اوباشوں سے پتھر کھا کر گلہ کیا

الیک اشکو ضعف قوتی و قلۃ حیلتی و ھوانی علی الناس

لمحوں میں پہاڑوں کا فرشتہ آگیا

لیکن وہ آخری دن تھا

اس کے بعد ہر روز قبولیت عامہ بڑھتی گئی.

دونوں جگہ

اجابت از در حق بہر استقبال مے آید

لوگوں کے سامنے مشکلات کا ذکر لوگوں سے اللہ کی شکایت کرناہے جو بے ادبی ہے، لیکن اللہ سے گلہ کرنا اپنی بے بسی کا اعتراف ہے

رہا عمرہ تو اللہ کسی گھر کے ساتھ وابستہ نہیں

ھو معکم اینما کنتم تم جہاں بھی ہو گے وہ تمہارے ساتھ ہوگا.

طفیل ہاشمی