اہل تشیع کے سیدّنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدّنا عمر فاروقؓ پر الزامات

امامیہ اہل تشیع کے سیدّنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدّنا عمر فاروقؓ پر الزامات جہاں روایت اور سند کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے وہاں عقل سے بھی بری طرح ٹکراتے ہیں۔

جن لوگوں نے اسلام قبول ہی اسلام کے جاہ و جلال اور دنیاوی کامیابیوں کو دیکھ کر کیا، ان کے حوالے سے تو یہ بات گمان میں آسکتی ہے کہ وہ ویسی حرکتیں کریں گے جن کا الزام امامی حضرات ان بزرگوں پر دھرتے ہیں (اگرچہ ان پر بھی الزام کی مستند اور صحیح اسناد درکار ہوں گی) لیکن جو لوگ اس وقت اسلام لائے جب مسلمان بری طرح مغلوب تھے، مصائب کا شکار تھے اور کلمہ پڑھنے کا مطلب مشکلات اور مظالم کو دعوت دینا تھا، ان کے ایمان پر شک کرنا اور انہیں نعوذ باللہ منافق سمجھنا بے تُکی بات ہے۔

اہل یثرب کی اکثریت نے چونکہ اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے ان میں اکثریت سے مغلوب ہوجانے والی ایک منافق اقلیت پیدا ہوگئی تھی چنانچہ جب ہم لوگ منافقین کا لفظ قرآن یا سیرت میں پڑھتے ہیں تو ہمارا ذہن عبداللہ بن ابئ کے گروپ کی طرف جاتا ہے۔ لیکن امامی حضرات منافقین سے متعلق بہت سی آیات کو مہاجرین کے ایک بڑے طبقے پر بھی منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا کوئی عقلی جواز نہیں کیونکہ مہاجرین نے تو مشکل ترین حالات میں، مزاحمت اور سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرکے اسلام قبول کیا۔ ان کے سامنے تو کوئی دنیاوی مجبوری، کسی اکثریت کا دباؤ یا کوئی لالچ محرک کے طور پر موجود نا تھا۔

محنت کش طبقے کے سابقون الاولون نے جہاں قریش کا تشدد اور مار دھاڑ سہی وہیں خود قریش میں سے اسلام قبول کرنے والے ابتدائی سرداروں کو اپنی پوزیشن، اپنا اثر و رثوخ، قریش کی پارلیمنٹ دارالندوہ میں اپنی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا اور اپنے روزگار، تجارت ۔۔۔ یہاں تک کہ خاندانی زندگی کو بھی داؤ پر لگانا پڑا۔ یہ سب سننے میں نسبتاً آسان بات لگ سکتی ہے لیکن ایک لحاظ سے یہ جسمانی تشدد سہنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ غریب صحابہ کے پاس تو کچھ کھونے کو تھا نہیں، ان کے قبولِ اسلام کے محرکات میں تو کسی حد تک طبقاتی غصہ اور ظلم کے خلاف ردعمل شامل ہونے کا گمان بھی ہوسکتا ہے لیکن عشرہ مبشرہ کے قریشی سردار تو جب مسلمان ہوئے تو بہت کچھ قربان کیا ۔۔۔ صرف اس لیے کہ وہ جان اور مان چکے تھے کہ محمدؐ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ یہ تو خالص ترین ایمان اور صداقت پرستی ہے۔ ان کے مقابل قریش کے اکثر سردار ایسے تھے جو جانتے تھے کہ رسولؐ اللہ بالکل سچ بول رہے ہیں لیکن صرف اس وجہ سے اسلام نا لائے کہ انہیں بھی اپنا عہدہ اور مقام چھوڑنا ہوگا۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ مکی دور میں اسلام لانے والے قریشی سرداروں بشمول شیخین کریمین کی قربانی کتنی بڑی تھی۔

یہ دونوں بزرگ بعثت نبوی سے قبل بھی دارالندوہ کے موثر اور متحرک رکن تھے اور ان کی بات کو قریش بہت غور سے سنتے تھے۔ دونوں کو قریش کا مستقبل سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ ابوسفیان جیسا مال دار سردار جو بنی امیہ جیسے بڑے قبیلے کا سردار تھا سیدّنا ابوبکر صدیقؓ سے اس دور میں یعنی پہلی وحی سے قبل سے ہی حسد رکھتا کیونکہ ابوبکر چھوٹے قبیلے کے سردار ہونے اور نسبتاً کم مال و دولت ہونے کے باوجود اپنی فہم و فراست اور کردار کی بنا پر قریش اور دارالندوہ میں زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ سیدّنا عمر سے تو خود ان کا ماموں ابوجہل عمرو بن ہشام جیلس ہونے لگا تھا کیونکہ سب سے کم عمر رکن ہونے کے باوجود آپ رض دارالندوہ کے اجلاسوں پر چھائے رہتے تھے۔ یہ سب عزت اور اکرام چھوڑ کر ایک پستے ہوئے، کمزور اقلیتی گروہ میں ملنے کی ایمان کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔

ہجرت اور جنگِ بدر اتنی بڑی قربانیاں تھیں کہ بغیر ایمان کے کوئی ان کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان بزرگوں اور دیگر اصحاب نے ان دونوں کو بغیر رتی برابر تردد کے سرانجام دے ڈالا۔ بدر میں عبدالرحمان بن ابوبکر قریش کی طرف سے لڑنے آئے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ایک دن اپنے والد کو بتانے گے کہ ابا جی، بدر میں ایک موقع پر آپ میرے نرغے میں آگئے تھے لیکن میں نے رشتے کا لحاظ کرکے چھوڑ دیا۔ سیدّنا ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ بیٹا، تو نے چھوڑ دیا لیکن اگر تو میرے ہتھے چڑھ جاتا تو میں تجھے کبھی نا چھوڑتا کیونکہ مجھے دین سب رشتوں سے زیادہ پیارا ہے.

احد کے موقع پر ہزار لوگ گھروں سے نکلے لیکن تین سو منافقین میدان تک پہنچنے سے قبل ہی گھروں کو لوٹ گئے۔ دراصل منافق یہی لوگ تھے لیکن امامیہ کے ہاں ان تمام اصحاب کو منافق قرار دے دیا جاتا ہے جن کے قدم خالد بن ولید کے حملے سے اکھڑ گئے، یعنی کوئی درجن بھر اصحاب کے سوا سب کے سب۔ یہ بات رتی برابر بھی عقل سے مطابقت نہیں رکھتی کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ آخر کیوں رسول اللہ سے حالت امن میں بغیر ایمان کے وابستہ رہیں گے اور قوت میں قریش سے کئی گنا کم ہونے کے باوجود میدان جنگ تک بھی آئیں گے جبکہ رسولؐ اللہ انہیں کوئی مال یا عہدہ نہیں دیتے تھے اور جنگ میں جیت کا ظاہری امکان بھی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال، ہمارے نزدیک تو شیخین کریمین ان درجن بھر جانثاروں میں بھی تھے جو بھگدڑ مچنے کے باوجود ڈٹے رہے لیکن مومن ہم سب سات سو احدی اصحاب کو سمجھتے ہیں۔ مومن ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ انسان بشری کمزوریوں سے پاک ہوجائے اور معصوم عن الخطاء بن جائے۔ عصمت اور منافقت کی انتہاؤں کے درمیان بھی ایمان اور عظمت کا ایک کھلا میدان ہوتا ہے جو امامیوں کو اپنے معاملے میں نظر آتا ہے لیکن اصحاب کے معاملے میں نہیں۔

بالفرض عقل پر پتھر رکھ کر مان لیا جائے کہ کسی امید یا بصیرت کی بنا پر دنیاوی مقام و مرتبہ کے لیے ہی ان لوگوں نے اسلام کی کمزوری کے دنوں میں اسلام قبول کرلیا۔ لیکن یہ امیدیں تو ریاست مدینہ بننے کے بعد بھی سالوں تک پوری نا ہوئیں۔ ہجرت سے جنگ خیبر تک مسلمانوں کے گھروں میں فاقے ہوتے رہے اور حالات بہت کٹھن رہے۔ یہاں حکومت آئے چھ ماہ گزرتے ہیں اور اسی پارٹی کے حامی پارٹی چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ لوگ کوئی آٹھ نو برس ڈٹے رہے، ماضی میں خوشحال رہ چکنے کے باوجود بھوک اورمعاشی بائیکاٹ برداشت کرتے رہے ۔۔۔۔ یہ کیسی منافقت تھی کہ کوئی بھی مکہ واپس جا کر قریش کے ساتھ نا ملا ۔۔۔ حالانکہ اگر وہ ایسا کرنے چاہتے تو کیا چیز رکاوٹ ہوسکتی تھی ؟ نعوذ باللہ رسولؐ نے انہیں جبراً تو اپنے ساتھ نہیں رکھا ہوا تھا۔

امامیوں کا عقیدہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کی حکومت مولا علی ع کا خداداد حق تھا اور ان کی جگہہ خلیفہ بن جانے والوں نے حکمِ خداوندی کی خلاف ورزی کی اور دین کو غلط سمجھا ۔۔۔ ہم اس عقیدے سے اتفاق نہیں رکھتے لیکن ٹھیک ہے، آپ نے یہ عقیدہ رکھنا ہے تو ہمیں آپ کی وجوہات بھی سمجھ آتی ہے، ہمارا اور آپ کا تاویلِ دین کا اصولی فرق ہے جس کا ہم احترام کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر جب آپ شیخین کریمین پر ہوسِ اقتدار کا اور ایسے کاموں کا الزام لگائیں گے جن کا محرک صرف ہوسِ اقتدار ہی ہوسکتی تو اس بات پر ہمارا دل دکھنے سے پہلے ہمارا ذہن آپ پر ہنستا ہے کیونکہ یہ بات عقلی طور پر بے تُکی اور معذرت کے ساتھ، بے ہودہ یے۔

جن لوگوں کو واقعی فتوحات کے بعد ہونے والی دولتِ دنیا کی ریل پیل اور مال اور اولاد کی محبت نے بدل دیا تھا انہوں نے محل بھی بنائے، طرز زندگی بھی شاہانہ کیا اور بچوں کے لیے بھی بہت کچھ چھوڑ کر گئے۔ شیخین کریمین نے تو اپنی سگی بیٹیوں کو ان کے شوہر رسولؐ اللہ سے ترکے میں ملنے والا حصہ بھی نا دیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ نبیوں کا ترکہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔ یہ الگ فقہی بحث ہے کہ وہ درست سمجھتے تھے یا غلط جس پر اصولی اختلاف ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ لیکن جب عائشہ سلام اللہ علیہا اور حفصہ سلام اللہ علیہا کو بھی ترکے میں کچھ نا مل رہا ہو، جب بنو ہاشم کے لیے بیت المال سے جاری ہونے والے وضائف بنو عدی اور بنو تیم کے لیے جاری ہونے والے وظائف سے کہیں زیادہ ہوں، جب عدی و تیم کے قابل جوان بھی سرکاری عہدوں سے دور رکھے جاتے ہوں، جب دونوں خلفاء کے طرزِ زندگی اور معیار زندگی میں آسائش کی رتی بھی نا بڑھی ہو بلکہ فقیرانہ رنگ گاڑھا ہوگیا ہو تو آپ ان دونوں بزرگوں پر بری نیت یا ہوسِ اقتدار کا الزام بہرحال نہیں لگا سکتے اور جب یہ الزام ہی نفی ہو جائے تو وہ سب گھناؤنے الزام تو خود ہی بے معنی ہوجاتے ہیں جو میں یہاں لکھنا بھی نہیں چاہتا۔

سچ تو یہ ہے کہ مولا علی ع، عبداللہ بن مسعود، عمار یاسر، سلمان فارسی اور ابوذر غفاری رضی اللہ عنہم کے علاوہ تین چار ہی لوگ ہیں جن پر مال و دولت اور حکومت نے بالکل اثر نہیں کیا : سیدّنا ابوبکر، سیدّنا عمر، سیدّنا ابوعبیدہ اور سیدّنا سعید بن زید رضی اللہ عنہم۔ شیخین پر یہ الزام کبھی کوئی امامی بھی نہیں لگا سکا کہ انہوں نے اپنے یا اولاد کے لیے جائیدادیں بنائیں یا عیش و عشرت کے ساتھ حکومت کی۔ پھر بھی ان پر عجیب بے بنیاد قسم کے الزامات لگا کر دونوں بزرگوں کو بنو امیہ و بنو عباس جیسوں کی صف پر لا کھڑا کرنے والوں کی عقلوں پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

✍️ احمد الیاس