سعودی ولی عہد کااعتراف

سعودی ولی عہد نے کچھ ماہ قبل اعتراف کیا کہ ان کا ملک امریکہ کے کہنے پر ایک مخصوص تعبیرِ دین پھیلاتا رہا۔

اس مخصوص تعبیرِ دین کا کام پورا ہوگیا اور بعد میں اس کا پھل القائدہ اور داعش کی صورت آیا تو امریکہ کو اس تعبیرِ دین کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچنا پڑا۔

مذہب مسلمان ممالک میں اتنا ضروری ہے کہ سامراج اسے اپنے حال پر نہیں چھوڑ سکتا۔

مشرف اور زرداری دور میں امریکہ کی ایما پر تصوف امریکہ کو پسند رہا اور پاکستان، اردن اور مصر جیسے صوفی معاشروں والے ممالک کی مدد سے اس پر کام کیا گیا لیکن نتائج توقعات کے برعکس نکلے اور صوفیاء لبرل اور سیکولر نا ثابت ہوئے بلکہ تصوف نواز فرقے سے ممتاز قادری برآمد ہوا۔ پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا پروجیکٹ صوفی ازم فیل ہوگیا۔

اب سامراج کو اپنے نئے مفادات کے لیے ایک نئی تعبیرِ دین کی ضرورت تھی اور اس تعبیرِ دین کو لانچ کرنے کے لیے کسی نئے مسلم ملک کی مدد درکار تھی۔

فی زمانہ مشرقِ وسطیٰ میں سامراج کو دو طاقتوں سے مسئلہ ہے : ایران (بشمول لبنانی شیعہ حزب اور یمنی زیدی تحریک جیسی پراکسیز) اور اخوان المسلمین (بشمول فلسطینی مزاحمتی اسلامی تحریک جس کا نام فیسبک پر لکھنا ممنوع ہے).

نئی سامراج سپانسرڈ دینی تعبیر ایسی ہونی چاہئیے جو ان دونوں قوتوں کو تنہاء کرے۔

ان دونوں قوتوں میں مختلف مسالک سے ہونے کے باوجود جو بات مشترک ہے وہ ملوکیت اور سامراجیت کی مخالفت ہے اور یہی چیز امریکہ اور مسلم ممالک میں اس کی کٹھ پتلیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

اس لیے امریکہ اینڈ کمپنی کو ایسی تعبیرِ دین کی ضرورت ہے جو ملوکیت اور سامراجیت سے نا صرف توجہ ہٹائے اور انہیں نارملائز کرے بلکہ ان چیزوں کو مقدس بھی بنا دے۔

دین کے اندر جب سیاسی نظریات کی بات ہوگی تو ہر صورت اسلام کی پہلی صدی ہجری اور اس کی مختلف تفاہیم زیر بحث آئیں گی کیونکہ یہ صدی ہمارا ذہنی تشکیلی دور ہے۔

ملوکیت و سامراجیت کی مخالفت میں جو بھی اسلامی تحریکیں عالم اسلام میں اٹھیں، خواہ شیعہ ہوں یا ٹھیٹھ سنّی ۔۔۔ ان میں سیدّنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدّنا حسین رضی اللہ عنہ کو سب سے بڑا ہیرو مانا گیا۔

سامراج کے لیے از حد ضروری ہے کہ ملوکیت و سامراجیت کے تحفظ کے لیے تیار کی گئی تعبیرِ دین کے لیے مسلمانوں کی اکثریتی جماعت یعنی اہلسنت میں ان دو شخصیات کے حوالے سے موجود والہانہ جذبات اور عصبیت کو ختم کیا جائے۔

یہ اتنا بڑا کام ہے کہ کسی ایک مکتب فکر یا جماعت یا مشرب کے ذریعے نہیں ہوسکتا بلکہ کئی محاذوں سے کرنا ضروری ہے۔

اس کام کی پشت پناہی کے لیے جو ملک سب سے مفید ہے وہ متحدہ عرب امارات ہے۔ یہ نا صوفی ریاست ہے نا سلفی، نا کنزرویٹو نا لبرل، نا اسلامی نا سیکولر۔ لہذا ہر مشرب و مکتب کے مسلمانوں تک اس کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ دولت مند ہے اور امریکہ کا بااعتماد اتحادی ہے۔ لہذا پینٹاگون اور سی آئی اے کا جو ڈیپارٹمنٹ ریاض کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرتا تھا، وہ اب ابوظہبی کے ساتھ کام کررہی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن بلکہ گہری دوستی قائم کرنے میں یو اے ای کا لِیڈ لینا اور بدلے میں ایکسپو 2020 جیسی ریوڑیاں سامراج سے وصول کرنا بھی بہت کچھ بتارہا ہے۔ مولوی حضرات کے ایک مخصوص بڑے طبقے نے بھی گزشتہ کچھ سال میں فلسطین کاز پر بات کرنا بالکل ترک کردیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت ناصبیت کی اکثر زنانہ و مردانہ موثر اور بڑی آوازیں انٹرنیٹ پر یو اے ای میں بیٹھی ہیں۔

جو آوازیں پاکستان سے اٹھی ہیں اور بالخصوص “بریلوی” مکتب فکر سے اٹھی ہیں ان کے پیچھے بھی یو اے ای نظر آتا ہے۔

ایک متنازعہ شخصیت کا “عرس” منا کر جھگڑا بلکہ بریلوی مکتب فکر میں فکری خانہ جنگی شروع کرنے والی ایک کراچی بیسڈ تنظیم کو یو اے ای جیسے آمرانہ ملک میں نا صرف بہت فری ہینڈ دیا گیا بلکہ اس جماعت کی اماراتی فنڈنگ کے بھی قوی شواہد موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ایمریٹس جیسی ائیر لائنز کے جہازوں میں مسافروں کی نشستوں پر جو ٹی وی نصب ہوتے ہیں، ان میں معیارات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہرا چینل بھی نشر کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ سعودی عرب جہاں تبلیغی جماعت کو حال ہی میں ممنوع قرار دیا گیا ہے، وہاں بھی ہری پگڑیوں والی جماعت کے لیے سپیس بنائی گئی ہے۔

بریلوی اور دیوبندی کلیساؤں کے ڈیڑھ سو سال پرانے جھگڑے جن میں کفر کے لاتعداد فتوے اور شدید نفرت گھُلی ہوئی تھی جب اچانک “سنّی اتحاد” کی سطحی اور حلق سے نیچے نا اترنے والی باتوں میں ڈھلنے لگیں اور یہ باتیں اسلام کی بنیادی باتوں کی بجائے صرف ایک مخصوص ایشو پر مرکوز ہوں تو یہ بات بھی بہت کچھ بتاتی ہے۔

پھر مغربی سامراج کے pet mullah یعنی غامدی صاحب بھی جب اچانک انتہائی شد و مد اور بدلحاظی و انتہاء پسندی سے بہت عجیب اور تشویش ناک انداز میں اسی مخصوص ایشو پر بولنے لگیں اور جو مولوی کل تک ان پر کفر و فتنہ کے فتوے لگاتے تھے ان ہی میں ان کی محبت جاگنے لگے تو اندیشوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔

سامراج مسلم ہو یا مغربی ۔۔۔ ہمیشہ سے دین کی تعبیر کو اپنے مفادات کے لیے موڑتے آئے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں۔

اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں پاکستان کے مقاصد میں سے ایک عرب سامراجیت (بنوامیہ و بنو عباس) کے اثرات سے آزاد کروا کر اس کی آفاقی روح کو بروئے کار لایا جاسکے وہاں اسلام پر عربی سامراج سے ہزار گناہ بدتر غربی سامراج کے مفادات کا بھی مزید بوجھ ڈالا جائے تو مقامِ فکر ہے۔

بہرحال

سیاستِ سیدّنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم زندہ باد

احمد الیاس