مفتی تقی عثمانی اور سلمان تاثیر

سلمان تاثیر قتل کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں دیوبندی مسلک کے رہنما مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا تھا

“یہاں صورت حال جو تھی وہ ذرا مشکوک تھی، جیسا بیان کیا کہ آیا واقعتاً اس کی بات گستاخی رسول تک پہنچتی تھی یا نہیں پہنچتی تھی یہ بات واضح نہیں تھی اس حالت میں اس (ممتاز قادری) نے اس (سلمان تاثیر) کو قتل کیا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جذبہ اس کا بڑا نیک تھا۔ جذبہ یہی تھا کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی ہوئی ہے لہذا میں اس کا بدلہ لوں گا۔ جذبہ نیک تھا۔ اس نیک جذبے کی وجہ سے اس شخص کے حق میں بھی نیک گمان رکھنا چاہیے۔ اور اس نے جو کچھ کیا وہ نبی کریمؐ کی تعظیم اور تکریم کی نیت سے کیا اس واسطے اللہ تعالی کے ہاں امید ہے کہ وہ [غیر واضح لفظ: ماجور؟] ہی ہو گا اللہ کی رحمت سے”۔

سیالکوٹ میں سری لنکا کی شہری پریانتھا کمارا کے قتل پر مفتی تقی عثمانی صاحب کا بیان

“توهين رسالت انتہائی سنگین جرم ہے لیکن ملزم سے اسکے ارتکاب کے ثبوت بھی اتنے ہی مضبوط ہونے ضروری ہیں کسی پر یہ سنگین الزام لگا کر خود ہی اسے وحشیانہ اور حرام طریقے سے سزا دینے کاکوئی جواز نہیں سیالکوٹ کے واقعے نےمسلمانوں کی بھونڈی تصویر دکھاکر ملک وملت کو بدنام کیا ہے اناللہ”