کیا محرم اور میلاد النبی کے تیوہار سے وابستگی ترقی پسندی کی ضد ہے

میرا یہ مضمون اس سوال کے جواب میں ہے کہ “کیا محرم کے سوگوار ثقافتی تیوہار اور میلاد النبی کی پرمسرت تیوہار سے وابستگی ترقی پسندی کی ضد ہے؟ اور اس حوالے سے ترقی پسند تحریک کے اولین معماروں کا رویہ کیا رہا ہے؟ گزشتہ چند سالوں سے ایک لبرل سیکشن نے سوشل میڈیا پہ محرم اور میلاد کو برصغیر پاک و ہند کے باقی تیوہاروں سے الگ کرکے اسے منانے والے لبرل، ترقی پسند، سوشلسٹ اور کمیونسٹوں کو محرم میں “شیعہ” اور ربیع الاول میں “بریلوی” ہوجانے کا طعنہ دیتے ہیں – یہ لبرل سیکشن ہمیں کبھی کرسمس، ہولی، دیوالی، ایسٹر، کمبھ، بیساکھی، شاہ حسین کا عرس میلہ چراغاں، بلھے شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، لال شبہاز قلندر، خواجہ اجمیر چشتی کا عرس منانے والے لبرل سیکشن کو کبھی ان تیوہاروں کے ایام میں کرسچن، ہندؤ، سکھ اور صوفی مسلمان ہوجانے کا طعنہ دیتا نظر نہیں آتا، کیوں؟

یہ گروبند سنگھ کی برسی کی تقریبات میں شرکت پہ طعنہ زن نہیں ہوتا بلکہ اُن ایام میں یہ مغل بادشاہ کی روش پہ شدید تنقید کرتا نظر آتا ہے –

عجیب بات ہے کہ یہ لبرل سیکشن منصور حلاج، سرمد سرمست کی شہادتوں کو قرون وسطی کی غلام دارانہ بادشاہتوں کے خلاف بغاوت کے طور پہ پوجتا ہے لیکن علوی تحریکوں کے سب سے بڑے شہید امام حسین کے معاملے میں یہ اپنے طور پہ مفروضات گھڑتا ہے اور امام حسین اور یزید کے درمیان معرکے کو دو شہزادوں کی جنگ، دو قبائل کے درمیان اقتدار و غلبے کی جنگ کے طور پہ دیکھنے دکھانے کی کوشش کرتا اور حسین علیہ السلام سے جڑی محرم کی ثقافت کو رجعت پسندی کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے –

اس لبرل سیکشن میں ایسے لبرل دانشور بھی ہیں جو کالونیل دور میں انگریز و سکھ مخالف مذھبی تحریکوں کے بانیان کی مداح سرائی کرتا ہے اور اُن کے فرقہ وارانہ، مذھبی بنیاد پرستانہ رجحانات کو یکسر نطر انداز کردیتا ہے – جہسے شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد کی تحریک جہاد، حاجی شریعت اللہ اور تیتو میر کی فرائضی تحریک جیسے دیوبند مدرسہ تحریک کے محمود حسن کی ریشمی رومال تحریک، حسین احمد مدنی کی جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد، تحریک خلافت و تحریک موالات و ھجرت کے نمایاں علماء کا کردار… یہاں یہ بھول کر بھی ان شخصیات کے مذھبی خیالات کو زیر بحث نہیں لاتا اور بار بار نوآبادیاتی دور میں جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار کے “سیکولر نیشنل ازم” کا زکر کرتا ہے – لیکن جب امام علی سمیت علوی تحریک کے سربراہ آئمہ اھل بیت کا زکر آئے تو یہ اُن کی جدوجہد میں ترقی پسند عناصر کی نشاندہی اور اُس کی مدح سرائی پہ ان کی بھنوئیں تن جاتی ہیں اور یہ ہجویہ انداز اختیار کرلیتا ہے – یہ مضمون ان کے اسی طرح کے متضاد اور دوہرے معیارات کی نشاندہی کرتا ہے –

ان میں ایسے لبرل بھی شامل ہیں جو نوآبادیاتی دور میں سندھ، پنجاب، سرحد کے فرنگی مخالف علماء اور مابعد نوآبادیات صوبائی خودمختاری اور قوم پرستانہ تحریکوں میں شامل کئی ایک علماء کی مدح سرائی تو خوب کرتا ہے لیکن حسین اور دیگر شہیدان کربلا کی اموی ملوکیت کے خلاف جدوجہد انھیں ترقی پسندانہ نظر نہیں آتی –

میں سُنی گھرانے کا پس منظر رکھنے والا ترقی پسند شیعہ گھرانے کا پس منظر رکھنے والے ترقی پسندوں سے کہیں زیادہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیشں میں صدیوں میں تشکیل پانے والی محرم کی مشترکہ ثقافت/کمپوزٹ کلچر اس لبرل سیکشن کے منافقانہ رویے کو بے نقاب کروں –

یہ لبرل سیکشن ایسے لبرل کو بھی اپنی پناہ میں لیے ہوئے ہے جو پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پہ ابھرنے والے شیعہ مخالف تشدد اور اُن کی نسل کُشی کو “ردعمل” اور تاریخی “شیعہ-سُنی مناظراتی کش مکش” کی مساوات میں رکھ دیلھتا اور دکھاتا ہے – جبکہ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ 80ء کی دہائی سے لیکر نائن الیون کے بعد پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش میں عقیدے کی بنیاد پہ مذھبی عسکریت پسندی اور مذھبی تشدد کرنے والے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کرسچن، ہندؤ، سکھ اور خود سُنی مسلمان برادری کی ذیلی برادریوں پہ کیوں حملہ آور ہوئے؟ اگر پاکستان میں نائن الیون کے بعد 25 ہزار پاکستان شیعہ، عاشورا کے جلوس، امام بارگاہیں، مجالس عزا نشانہ بنے اور وہ ایران-سعودی یا شیعہ – سُنی بائنری کا نتیجہ تھے تو جو بریلوی، صوفی، دیوبندی، کرسچن، ہندؤ، احمدی، سکھ، دربار و مزارات، مساجد، مدارس، مندر، مراکز احمدیہ نشانہ بنے وہ اس بائنری میں کیسے فٹ ہوں گے؟

یہ لبرل امریکی سامراجیت، اُس کی جنوبی ایشیا، مڈل ایسٹ، افریقہ میں فوجی اور پراکسی مداخلتوں کو کبھی مغربی سامراجیت – اسلامی بنیاد پرستی کی بائنری نہیں بناتے اور القاعدہ، داعش، طالبان کے لیے مسیحیوں، یزیدیی عراقیوں کی نسل کشی کے لیے وہ اپالوجی /معذرت خواہی تلاش نہیں کرتے جو یہ ان تنظیموں کے ساتھ لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ جیسی تکفیری عسکریت پسندی کے لیے شیعہ نسل کشی کے باب میں تلاش کرتے ہیں –

پاکستان میں فرائیڈے ٹائمز اور “ہم سب” تو طاہر اشرفی اور محمد احمد لدھیانوی جیسوں کو ردعمل کی پیداوار قرار دے کر اُن کو پروجیکٹ کرتے ہیں اور اُس پہ شرمندہ بھی نہیں ہوتے –

پاکستانی تعلیم یافتہ اربن مڈل کلاس کے لبرل نوجوانوں کے سامنے یہ خود کو مسالک اور فرقوں سے ماورا بناکر پیش کرتے ہیں اور ترقی پسندی، روشن خیالی، عقلیت پسندی اور لبرل سوچ کے نام پہ اُن کو پہلے سے مارجنلائزڈ، دہشت گردی کی متاثرہ شیعہ برادری کے ثقافتی تیوہار پہ شدت سے حملہ آور ہونے کی ترغیب دیتے ہیں –

#محرم1443

محمدعامر حسینی