پروپیگنڈا ایسی خوفناک چیز ہے

پروپیگنڈا ایسی خوفناک چیز ہے کہ اس کا شکار ہونے والے کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ وہ خوش فہمیوں کے اس مقام پر پہنچ چکا ہے جس کی حیثیت سبز باغ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اگر پروپیگنڈا مذہبی حلقے کا ہو تو معاملہ یوں زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے پرستار کمبخت غیر ضروری عقیدتیں پال لیتا ہے۔ ایسی عقیدتیں جہاں ان کا ممدوح معصوم عن الخطاء کا درجہ بھی پا لیتا ہے اور یہ اپنے ممدوح سے متعلق کسی چبھتے سوال کو ایمانیات کا مسئلہ بھی بنا لیتا ہے۔ بسا اوقات محض ایک جملہ ہوتا ہے جو پورے حلقے یا مکتب فکر کی سطح پر عام ہوتا ہے۔ سب اسے مل کر چلا رہے ہوتے ہیں اور کوئی بھی یہ زحمت گوارا نہیں کرتا کہ اس کی تہہ میں ہی اتر لیا جائے۔ مثلا ہم دیوبندیوں کے ہاں ایک جملہ بہت عام ہے

“حضرت مدنی کے شاگرد ہیں”

یہ جملہ سنتے ہی سامع کی ایک عجیب و غریب نشیلی کیفیت ہوجاتی ہے جسے وہ عقیدت سمجھتا ہے۔ اگر آپ غور کیجئے تو اس جملے کا ڈھول اس زور و شور سے پیٹا گیا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے اسی دور کے دورہ حدیث کے باقی اساتذہ تاریخی طور پر گمنامیوں کے اندھیرے میں گم ہوگئے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے حضرت مدنی صبح دورہ حدیث کی کلاس میں داخل ہوتے اور شام تک اکیلے ہی صحاح ستہ پڑھاتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے سبق کا ناغہ بھی ہوتا اور صورتحال یہ بھی ہوگئی تھی کہ انہیں اپنے پیریڈ سے ہٹ کر اسباق پڑھانے پڑتے۔

واللہ العظیم مجھے حضرت مدنی سے کوئی مسئلہ لاحق نہیں۔ میرا ان سے قلبی رشتہ عقیدت کا ہی ہے۔ مگر ایسی عقیدت جو کسی مبالغہ آرائی یا “گیم” پر مشتمل نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب میں نے لڑکپن میں پہلی بار کسی کے لئے سنا کہ “حضرت مدنی کے شاگرد ہیں” تو چونک اٹھا۔ آج بھی یاد ہے یہ جملہ پہلی بار دارالعلوم رحمانیہ میں سنا تھا اور حضرت مولانا عزیر گل رحمہ اللہ کے لئے سنا تھا۔ میں نے اس کا مطلب یہ لیا تھا حضرت مدنی کم از کم بھی ابن حجر لیول کی ہستی تو ضرور ہوں گے اور ان کا شاگرد ہونا اسی نسبت سے غیر معمولی بات ہوگی۔ لیکن جلد پتہ چلا کہ حضرت مدنی کی تو علم حدیث پر کوئی کتاب ہی نہیں۔ بیشتر کتب سیاسی موضوعات پر ہیں ایک دو تصوف پر۔ اس سے ذہن میں ایک بڑا سوال پیدا ہوگیا ۔ اور وہ یہ کہ پھر اس جملے کو اس تواتر سے کیوں چلایا جاتا ہے کہ “حضرت مدنی کے شاگرد ہیں” ؟ تفصیل میں نہ ہی جاؤں تو بہتر ہے ، مختصرا بس اتنا سمجھ لیجئے کہ یہ علامہ انور شاہ کشمیری کا سورج گہنانے کی ایک ناکام کوشش تھی، جس میں حضرت مدنی کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ سب چمچوں کا کیا دھرا ہے !

رعایت اللہ فاروقی