عربی زبان و ادب کے ساتھ جاوید احمد غامدی صاحب کا سنگین مذاق​ – از ڈاکٹر رضوان علی ندوی

غامدی صاحب غامدی کے چار مختلف مطالب بتاتے ہیں

محترم جاوید غامدی صاحب! سلام مسنون

آج مورخہ ۵؍ اپریل ۲۰۰۷ء کو آپ کی ویب سائٹ ghamidi.org سے ٹھیک چھ بج کر پچاس منٹ پر آپ کا تعارف نامہ معہ تصویر حاصل کیا گیا۔ آپ کے تعارف میں درج ہے ’’ان کے دادا نور الٰہی کو لوگ گاؤں کا مصلح کہتے تھے، اسی لفظ مصلح کی تعریب سے اپنے لیے غامدی کی نسبت اختیار کی اور اب اسی رعایت سے جاوید احمد غامدی کہلاتے ہیں‘‘۔ مصلح خود عربی لفظ ہے اس کی تعریب سے غامدی کی نسبت اختیار کرنے کا طریقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ ممکن ہے اس کے بھی کچھ اصول و مبادی آپ نے حسب معمول وضع فرمائے ہوں۔ مصلح غیر عربی لفظ تو نہیں کہ اس کی تعریب کی جاسکے۔ غامد کا مادہ [غ م د] اسم فاعل ہے اور اس کے معنی چھپانے اور مستور رکھنے کے ہیں۔ براہ کرم اس چیستاں کی گرہیں کھول دیجیے۔ ڈاکٹر رضوان علی ندوی کے نام ایک خط میں آپ نے غامدی کا پس منظر یہ بیان فرمایا تھا کہ آپ کے بچپن میں آپ کے والد محترم کے کوئی دوست عرب سے تشریف لائے تھے ان کے نام کا آخری حصہ غامدی تھا آپ کے والد کو یہ نام اچھا لگا اور انھوں نے اسے آپ کے نام کا حصہ بنا دیا جب کہ [حدیث مبارک ابن ماجہ کتاب الحدود باب ۳۶] میں رسالت مآبؐ نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے باپ یعنی اپنے آباء و اجداد کے سوا کسی دوسرے باپ کے ساتھ اپنی نسبت جوڑ دے۔ گزشتہ دنوں ڈین فیکلٹی آف ماس کمیونی کیشن، جامعہ پنجاب ڈاکٹر مغیث شیخ کراچی تشریف لائے تھے۔ ایک نجی محفل میں جہاں سجاد میر، طاہر مسعود صاحب اور انعام باری صاحب بھی موجود تھے۔ آپ کا لقب غامدی زیر بحث آیا تو مغیث شیخ صاحب نے آپ کے حوالے سے اس کی تصریح فرمائی کہ ’’عربوں کا قبیلہ غامد فصاحت و بلاغت میں عالم عرب میں ممتاز تھا اسی مناسبت سے غامدی کنیت اختیار کی جس کے مجازی معنی ہیں عربی فصاحت و بلاغت میں ممتاز ترین شخص جب کہ تاریخ کے کسی تذکرے میں یمن کے غامدی قبیلے کی فصاحت و بلاغت کا کوئی ذکر نہیں اور عرب میں قبیلہ قریش افصح العرب تھا اس فصاحت کی غامدی قبیلے تک منتقلی عجیب بات ہے۔ چوتھی روایت آپ کے حوالے سے یہ بیان کی گئی ہے کہ بنو غامد کی وہ خاتون جنھیں رسالت مآبؐ نے اعتراف گناہ کے بعد سنگسار فرما دیا تھا اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے بعض ناروا الفاظ پر آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اگر غامدیہ کی توبہ مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہوگی‘‘۔ اس خاتون کے اکرام و احترام میں آپ نے غامدی کی نسبت اختیار فرمائی ہے۔ براہ کرم یہ فرمایے کہ اصل صورت حال کیا ہے، درست مؤقف کونسا ہے ؟ آپ کے چار مختلف مؤقف کی ترتیب زمانی کیا ہے اور آپ کے ارتقاء کے اصول کے تحت کیا اب مزید ارتقاء کا امکان تو نہیں؟ [ساحل کراچی کا ای میل خط]

غامدی صاحب کی ویب سائٹ۔ 2006 ghamidi.orgمیں ان کی سوانح کے ضمن میں درج ہے کہ: ’’ان کے دادا نور الٰہی صاحب کو لوگ گاؤ ں کا مصلح کہتے تھے، اسی لفظ مصلح کی تعریب سے اپنے لیے غامدی کی نسبت اختیار کی، اور اب اسی رعایت سے جاوید احمد غامدی کہلاتے ہیں‘‘۔یہ بڑا دلچسپ اور حیران کن انکشاف ہے۔ جس کا بقول کسے ’’نہ سر ہے نہ پیر‘‘۔ مصلح تو خود ہی عربی لفظ ہے، اس کی تعریب تو ایک مہمل بات ہے۔ تعریب کے معنی تو یہ ہیں کہ کسی غیر عربی لفظ کو عربی شکل و معنی دئے جائیں۔ جیسے استاذ، بستان، فالوذ، جاموس، دیباج وغیرہ فارسی الفاظ استاد، دبستان، پالودہ گاؤمیش، دیبا کی تعریب ہیں، اسی طرح طنبور، رُبّان وغیرہ۔ نہ معلوم ’’غامدی‘‘ بمعنی مصلح کا مطلب کس لغت سے اخذ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ غامدی کی نسبت لفظ ’’غامد‘‘ کی طرف ہے، جو مادۂ [غ م د] سے اسم فاعل ہے اور غمد یغمد غمداً کے معنی چھپانے اور مستور رکھنے کے ہیں، اسی لیے تلوار کی نیام کو ’’غِمْد‘‘ کہتے ہیں، اور أغمدَ السیف کے معنی ہیں تلوار کو نیام میں رکھنا۔ فعل ’’غَمَدَ‘‘ کے ایک اور غیر معروف معنی کنویں یا چھاگل میں سے پانی کے کم ہوجانے کے بھی ہیں۔ مشہور قدیم لغت نویس احمد بن فارس [وفات ۵۹۵ھ] نے اپنی بے نظیر لغت: ’’معجم مقاییس الغۃ‘‘ میں جو عربی الفاظ کے اصولی معنوں پر ہے بتایا ہے کہ [غ م و ] کی ایک ہی صحیح ’’اصل‘‘ ہے جو ’’تغطیہ و ستر‘‘ (چھپانے) کے معنی دیتی ہے اور تلوار کی نیام کو ’’الغمد‘‘ کہتے ہیں۔اور ساتھ ہی انھوں نے بعد کے دوسرے مشہورو معروف لغت نویسوں کی طرح اسی سے ماخوذ لفظ و ترکیب: تغّمدہ اللہ برحمۃ (مرنے والے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ اس کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے) یہ استعمال اور ’’الغمد‘‘ کا ا ستعمال کا بہت عام ہے۔ دوسرے معانی اتنے عام نہیں۔ اس کے ساتھ تمام لغت نویسوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’غامد‘‘ یمن میں ایک قبیلے کا نام ہے، جس سے نسبت غامدی ہے۔ ہم دسیوں عربی لغا ت کے نام گنا سکتے ہیں اگرچہ معجم مقابیس اللغہ اور لسان العرب وقاموس کے بعد کسی لغت کی ضرورت نہیں، ان لغات میں سے کسی میں مادۂ (غ م د) میں اصلاح کا کوئی مفہوم نہیں۔ تو غامدی صاحب نے مصلح کے معنی اس کے کس طرح نکال لیے۔ ۱۹۸۹ء یا ۱۹۹۰ء میں ڈاکٹر رضوان ندوی کے استفسار پر غامدی صاحب نے وضاحت کی تھی کہ ان کے بچپن میں یمن یا سعودی عرب سے کوئی عرب ان کے والد سے ملے تھے جن کے نام کے ساتھ غامدی کی نسبت تھی موصوف کے والد صاحب کو یہ نام پسند آیا اور انھوں نے اپنے بیٹے کے نام کے ساتھ غامدی لگادیا۔

ایک دوسری روایت کے مطابق موصوف محترم نے یہ نسبت اس عورت کے ساتھ کی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ماعز کے ساتھ رجم کیا گیاتھا، حیرت ہے کہ انھوں نے اپنے لیے ’’ماعزی غامدی‘‘ کی دونوں نسبتیں کیوں اختیار نہیں کیں؟ اس لئے کہ رجم تو دونوں کو کیا گیا تھا۔