جاوید غامدی حدیث کو مانتے نہیں اور دعویٰ ہے کہ مانتے ہیں – ہارون الرشید

پہلا آدمی جس نے تربیت کی بیعت لی، وہ جنیدِ بغداد ہیں، سید الطائفہ۔ اس لیے نہیں کہ میری اطاعت کرو۔ کس نے کہہ دیا کہ صوفی یہ کہتا ہے میری اطاعت کرو —
رہ گئے جاہل صوفی، تو شمس تبریز نے کہا تھا کہ ’’دنیا میں اتنے جعلی صوفی ہوتے ہیں، جتنے کہ آسمان پر ستارے۔‘‘ لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ تصوف بذاتِ خود غلط ہے۔ ہر روز ہزار جاہل مولوی ہم دیکھتے ہیں، ٹی وی پر چنگھاڑتے ہوئے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم علماء کے وجود سے انکار کردیں۔ تصوف کی تعریف کیا ہے؟ کسی نے کہا: ’’التصوف الحرّیۃ‘‘ تصوف حریت اور آزادی ہے، یعنی مکروہاتِ دنیا سے آزادی، فکر کی آزادی، گناہ سے آزادی، غم وفکر سے رہائی: ’’اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون‘‘ پروفیسر احمد رفیق کی تشریح یہ ہے: ’’تصوف شریعت کی نیت ہے۔‘‘

مولانا مودودی ایک عظیم نثرنگار ہیں۔ اصلاحی صاحب کی نثر ان سے بھی بہتر ہے۔ ان میں بڑی کاٹ ہے۔ مولانا مودودی کی نثر میں شائستگی بہت ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اوور کانفیڈنٹ ہوجاتے تھے۔ وہ بڑے عالم تھے، انہوں نے ایسی نثر لکھی ہے کہ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اصلاحی صاحب کہتے ہیں کہ ’’اہل تصوف طریقت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘‘ جناب! یہ اسی معنی میں ہے۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ شریعت کی روح کو ملحوظ رکھا جائے۔ لفظ نہیں، اصطلاح کے معروف اور مطلوب معانی دیکھے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی والے اسلام کو تحریک اسلامی کہتے ہیں، تو کیا اس سے کوئی الگ مذہب مراد لیا جائے؟ نظام مصطفی کا مطلب کیا فقط سیرتِ رسولِ اکرمؐ ہے؟ جنیدِ بغداد سے لے کر، شیخِ ہجویر اور خواجہ نظام الدین اولیاء سے لے کر خواجہ مہر علی شاہ تک۔۔۔ ہماری کتنے ہی عظیم المرتبت ہیں جو تصوف کی دنیا سے اٹھے۔ جن کے ہاتھ پر لاکھوں کروڑوں مسلمان ہوئے۔ اگر ان سب کو اُٹھا پھینکیں تو باقی کیا بچے گا؟ جو کچھ بچے گا اس میں بے شک عظیم الشان علماء کرام بھی ہیں، مگر بہت سے جاوید غامدی بھی ہوں گے۔

امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ’’ہم اہل ذکر کے بھی وہ امام ہیں۔‘‘ یہ ہے معیار۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے کب کسی سے بیعت لی؟ انہوں نے اپنے تجربے سے سیکھا کہ اسمائے ربانی، مسنون دُعائیں پڑھنی چاہییں۔ قرآن اور حدیث کو خود پڑھنا چاہیے، بہت توجہ اور گہرائی سے۔ اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھنا چاہیے۔ فرقہ واریت نہ ہونی چاہیے۔ اپنے شاگردوں کو وہ کیا سکھاتے ہیں۔ جو شخص ہر وقت اللہ کو یاد نہ رکھے گا، بخل سے نجات نہ پائے گا، وہ دین کی روح کو سمجھ نہیں سکے گا۔ بہت سلیقے سے، بہت انس اور الفت کے ساتھ۔ کمال ہے، غامدی صاحب کہتے ہیں کہ حدیث تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ باقی بچے گا کیا؟ سیرت کیا ہے؟ حدیث ہے نا؟ قرآن تو سیرت کے بغیر ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔

غامدی مکتب کے ایک معروف ’’مدعی‘‘ نے، جو خود کو امام زمانہ سمجھتا ہے، نے سب کے سامنے مجھ ناچیز سے کہا: ’’اپنے کالموں میں حدیث نہ لکھا کرو۔‘‘ یہ لوگ حدیث کو مانتے نہیں اور دعویٰ ہے کہ مانتے ہیں۔ غلام احمد پرویز کی طرح جرات دکھائیں کہ ہم نہیں مانتے۔

اگر عشق اور عقل کے فلسفے میں ہم علامہ اقبال کے موقف کو تسلیم نہ کریں تو اس کے باوجود وہ علمی مجدد کے مقام پر ہی فائز رہیں گے، کوئی دوسرا ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔

(سوال: غامدی صاحب حدیث کا انکار تو نہیں کرتے، ان کا کہنا یہ ہے کہ جو احادیث قرآن سے متصادم ہیں، انہیں چھوڑدینا چاہیے۔)

ہارون الرشید: اس کا فیصلہ غامدی صاحب تو نہیں کرسکتے۔ شامی صاحب کی موجودگی میں ان سے پوچھا تھا کہ یہ جو امریکا نے حدود پر بحث چھیڑی ہے، آپ اس کا ایندھن کیوں بن رہے ہیں؟ بولے: جماعت اسلامی والے بھی تو جاتے ہیں۔ عرض کیا: کب سے آپ ان کی دانائی کے قائل ہوگئے؟ اس پر وقاص شاہ بولے: ارے بھائی! ہمیں تو معاف کردو۔ بھائی! آپ کی بصیرت پر اعتماد کیسے کیا جاسکتا ہے؟ آپ کہاں کے امام ابوحنیفہ ہیں، ان کا تو دعویٰ ہی نہیں تھا، یہ تو دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ جب آدمی کو اپنے آپ سے محبت ہوجاتی ہے، وہ اپنا تجزیہ نہیں کرسکتا، دوسروں کو کیا، زمانہ کو کیا، علوم کو کیا، وہ خود کو بھی سمجھ نہیں سکتا۔ غامدی صاحب کو تو اللہ نے مسکرانے کی بھی توفیق نہیں دی، اپنا تجزیہ کرنے کی صلاحیت کہاں سے آئے گی؟ اختلاف رائے ہمیشہ ہوتا ہے۔ احمد جاوید صاحب بڑے آدمی ہیں، لیکن ہم ان سے بھی اختلاف کی جسارت کرتے ہیں۔ علامہ اقبال سے عشق اور عقل کے فلسفے پر مجھ معمولی طالب علم کو اختلاف ہے۔ بڑے سے بڑا صاحبِ علم کسی چھوٹے بڑے مغالطے کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہ اختلاف اور قسم کے ہیں۔ اس سے اقبالؔ کی عظمت میں کمی نہیں آتی۔ غزالیؒ کو حدیث میں کمزور سمجھا گیا، اس کے باوجود وہ امام غزالیؒ ہیں۔ اگر عشق اور عقل کے فلسفے میں ہم علامہ اقبال کے موقف کو تسلیم نہ کریں تو اس کے باوجود وہ علمی مجدد کے مقام پر ہی فائز رہیں گے، کوئی دوسرا ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔

سوال: مولانا مودودی، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا احسن اصلاحی میں کس کی نثر سے آپ متاثر ہیں؟

ہارون الرشید: مولانا مودودی ایک عظیم نثرنگار ہیں۔ اصلاحی صاحب کی نثر ان سے بھی بہتر ہے۔ ان میں بڑی کاٹ ہے۔ مولانا مودودی کی نثر میں شائستگی بہت ہے۔ اصلاحی صاحب نے جماعت اسلامی سے علیحدگی کے ہنگام جو خط مولانا مودودی کو لکھا تھا، آدمی عش عش کر اُٹھتا ہے۔ یہ خواہش کرتا ہے کہ کاش! ہمیں بھی ایسی نثر لکھنے کی توفیق ہو۔ عربی زبان پر ان کی دسترس بہت زیادہ تھی۔ ان کا potential بہت زیادہ تھا، پوری طرح بروئے کار نہ آسکا۔ شاید راجپوتی شان کی وجہ سے۔ پیدائشی پردہ، ایک فصیح آدمی تھے۔ میرا خیال ہے کہ عربوں کے بعد راجپوت سب سے زیادہ فصیح ہوتے ہیں۔۔۔ بے باک!

میں ابوالکلام آزاد کا قائل نہیں۔ ان کے اندر خلوص نظر نہیں آتا، خودپسندی البتہ۔ انہیں بس اپنے علم کی ہیبت جتانا ہے۔ خودستائی کے امام تھے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ خود اپنی ہی تقدیر کو سجدہ کریں۔

جہاں تک مولانا ابوالکلام آزاد کا تعلق ہے تو یہ بیدل اور سعدی کا موازنہ کرنے کے مترادف ہے۔ ابوالکلام آزاد مشکل پسند ہیں۔ غیرضروری طور پر عربی اور فارسی۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ ان کا قاری بات سمجھتا ہے یا نہیں، انہیں بس اپنے علم کی ہیبت جتانا ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ واقعہ تراش بھی لیتے۔ مثلاً: اپنی تفسیر کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی مجھ سے ایک آیت سمجھنے کے لیے قندھار سے پیدل چل کر آیا۔ اگر مجھے اس کا نام یاد ہوتا تو میں یہ انتساب اس کے نام کرتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کوئی آدمی سرے سے آیا ہی نہیں۔ یا پھر وہ کہتے ہیں کہ میں تاج محل کی چھت پر بیٹھ کر ستار بجایا کرتا۔ کبھی کسی نے انہیں آگرہ میں دیکھا ہی نہیں۔ ان کے ساتھ کبھی کوئی گیا ہی نہیں، انہوں نے کبھی اس کا ذکر ہی کسی سے نہیں کیا کہ ستار بجانے کے لیے تاج محل کی چھت پر جایا کرتے۔ پھر ایسی بھی کیا آفت پڑی تھی کہ تاج محل کی چھت پر ستار بجائیں۔ تاج محل نیچے ہے، آپ اسے دیکھ ہی نہیں رہے اور چھت پر ہلکان ہورہے ہیں۔ بھائی! میں تو ان کا قائل نہیں۔ مجھے آزاد کے اندر خلوص بھی نظر نہیں آتا، خودپسندی البتہ۔ یہ کیا کہ آدمی ہر وقت اپنی تعریف ہی کرتا رہے اور وہ بھی اس پائے کا آدمی۔ ہاں! ابوالکلام کا وصف یہ ہے کہ عطاء اللہ شاہ بخاری اور محمد علی جوہر کی طرح برصغیر کے خس وخاشاک میں انہوں نے آگ بھڑکائی۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ میں اقبالؔ کو تلاش کررہا ہوں، مجھے ملتا ہی نہیں۔ ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں۔‘‘ ’’اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے/ گفتار کا غازی تو یہ بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا۔‘‘ آدمی آخر یہ کیوں نہ کہے کہ مجھ میں یہ خامی ہے۔ ابوالکلام خودستائی کے امام تھے۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ خود اپنی ہی تقدیر کو سجدہ کریں۔ اقبالؔ اسی لیے ان سے دور رہے۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی۔

جماعت اسلامی کا کوئی مستقبل نہیں۔ کارکن خدمت خلق میں بہت جی لگاتا ہے۔ مگر یہ تجربے نے ثابت کردیا کہ سیاست میں یہ لوگ کامیاب نہیں ہوسکتے۔

ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ مولانا حسین احمد مدنی کا نام بغیر وضو کے نہیں لینا چاہیے۔ اب اس مخلوق کو کیا کہیے۔کیا کہیں لکھا ہے کہ حضور ﷺ کا نام وضو کے بغیر نہیں لیا جاسکتا۔ ہم درود پڑھتے ہیں تو اس کے لیے وضو کرتے ہیں؟ قرآن اہلِ ذکر کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’اُٹھتے بیٹھے وہ اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘ حسین احمد مدنی کو شیخ العرب والعجم کہتے ہیں، عرب وعجم کے شیخ تو بس آخری رسول ہی تھے یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام، جن کے بارے میں اللہ نے کہا: میں آپ کو تمام انسانوں کا امام بنادوں گا۔‘‘ ضرور مولانا حسین احمد مدنی متقی آدمی ہوں گے، قابل صد احترام، مگر ایسا کیا کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے؟ کوئی ایک جملہ ہی سنادیجیے۔