حدیث اور سنت کا فرق۔ ڈاکٹرطفیل ہاشمی

حدیث :ہر وہ بات، عمل اور تصویب جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ہو نیز آپ کی ہر بدنی اور اخلاقی صفت کا بیان حدیث ہے خواہ وہ قبل از نبوت سے متعلق ہو یا بعد از نبوت سے.
سنت :ہر وہ متواتر عمل جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہو اور بعد میں صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے ادوار میں رائج رہا ہو، خواہ لفظاً متواتر نہ ہو. حدیث کی دو قسمیں ہیں
تشریعی!
غیر تشریعی!

تشریعی سے مراد وہ امور ہیں جنہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کی تبیین و تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہو یا سماج میں رائج کر دیا ہو. یا وہ ایسا حکم ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو اور آپ نے اسے ایک حکم شرعی کے طور پر رائج کر دیا ہو جیسے موزوں پر مسح کرنا.
سنت کبھی قرآن کا بیان و تشریح ہوتی ہے اور کبھی قرآن کے حکم سے زائد حکم تاہم ہر صورت میں قرآن کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے. اگر سنت قرآن کا بیان ہو تو اصل حکم قرآن سے ثابت ہوتا ہے تاہم سنت کے ذریعے عام کی تخصيص، مطلق کی تقیید، ظاہر کی تاویل اور استثناء کی تعمیم ہوتی ہے نیز مصطلحات مثلا صلاۃ، زکاۃ، صوم، حج وغیرہ کے مفاہیم کا تعین بھی سنت سے ہوتا ہے. اگر سنت سے ثابت ہونے والا حکم قرآن سے زائد ہو تو ضروری ہے کہ قرآن اس ضمن میں خاموش ہو. بہر طور اولین حیثیت قرآن کو حاصل ہے.

غیر تشریعی روایات سے وہ روایات مراد ہیں جو کوئی حکم شرعی نہیں بتاتیں مثلا جو کام آپ نے بطور عادت کیے یا بشری تقاضے یا سماجی حالات کے تحت کیے مثلاً آپ کا مخصوص لباس، کھانوں میں پسند نا پسند، جنگی ساز و سامان، سواریاں، کسی کو گورنر، عامل یا قاضی بنانا کسی میدان جنگ کا انتخاب اور اس نوعیت کی ہزار ہا چیزیں ہیں جن کا بیان آپ کو کتب حدیث میں ملے گا، یہ امور احادیث ہیں لیکن سنت نہیں.

سنت کی حفاظت!
رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں تک صرف قران ہی نہیں پہنچایا بلکہ آپ نے ایک زندہ سماج کی تشکیل بھی فرمائی جو اپنی اساس میں قرآنی سماج تھا البتہ اس کے لیے قالب عرب تمدن سےمستعار لیا گیا. آپ نے صرف زبانی تعلیمات ہی نہیں دیں بلکہ ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس کی دانش و بصیرت، صداقت و دیانت، حب رسول اور تعلق مع النبی کو ماپنے کے لیے ہنوز تاریخ نے پیمانے وضع نہیں کیے۔آپ نے اور آپ کے بعد آپ کی تیار کردہ قیادت نے پوری انسانی تہذیب کو ان فکری، علمی اور سماجی روایات سے روشناس کروایا جس کی کوئی مثال ما قبل اور مابعد کی تاریخ میں نہیں ملتی.یہ جماعت اس فرق سے بخوبی آگاہ تھی کہ کون سا پہلو تشریعی ہے اور کون سی ادا غیر تشریعی. انہوں نے کبھی تمدن اور تدین کو خلط ملط نہیں ہونے دیا،نتیجتاً انہوں نے بہت جلد ایسے افراد اور ادارے تیار کر دیے جنہوں نے تشریعی روایات یعنی سنن نبوی کو اس طرح کی حفاظت، صیانت، ثبوت اور دلالت فراہم کر دی جس طرح کی کتاب اللہ کو حاصل تھی.اس تناظر میں یہ عین ممکن تھا کہ کوئی حکم الفاظ کے اعتبار سے خبر واحد ہو مگر عملاً اسے تداول و تواتر کی حیثیت حاصل ہو مثلا تیامن.

چونکہ تشریعی روایات قرآن کی تبیین اور سماج کی تشکیل میں اساسی حیثیت رکھتی تھیں اس لیے کبھی اور کسی دور میں ان سے بے اعتنائی نہیں برتی گئی. خلافت راشدہ میں تشریعی روایات کی جستجو اور ان کے مطابق زندگی کی تشکیل اور اہل علم کی تربیت، عمال، قضاۃ اور معلمین کا تقرر ایک معمول کی بات تھی.یہی وہ روایات ہیں جن میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کبھی کسی دور میں بھی ان میں سے کوئی بات امت کی نگاہوں سے اوجھل ہوئی ہو_یہی وہ روایات ہیں جو ائمہ مجتہد ین کے مکاتب فقہ کی بنیاد ہیں.عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جمع و تدوین حدیث کا مرتب کام تیسری صدی ہجری میں ہوا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ تشریعی روایات مکمل طور پر چھان پھٹک کر فقہاء صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے پہلے سے نہ صرف محفوظ کر لی تھیں بلکہ ان پر سماج کی بنیاد رکھ دی تھی اور تشریعی روایات کی جمع و تدوین کا کام صحاح ستہ سےتقریبا ڈیڑھ دو صدیاں پہلے ہوچکا تھا.

گاہے ہم دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ کی کسی مستند کتاب کی کسی روایت کی بنیاد پر کسی فقہی مذہب کے ایسے مستدل پر اعتراض کیا جاتا ہے جو ان کتب میں نہیں ہوتا، کہا جاتا ہے کہ آپ کے فقہی مذہب کا مستدل ضعیف روایت ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس نوع کا اعتراض کم علمی کا شاخسانہ ہوتا ہے،کیونکہ اولا یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ جس سند کی بنا پر آج ہم ایک حدیث کو ضعیف کہہ رہے ہیں امام مجتہد کے پاس بھی یہی سند تھی، اگر یہی تھی تب بھی اس میں ضعف بعد کے دور میں آیا ہوگا کیونکہ امام مجتہد کو اگر اس حدیث کی صحت میں کوئی شک ہوتا تو وہ اس پر اپنے مذہب کی بنیاد کبھی نہ رکھتے. نیز تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی سند کی بنا پر پہلی اور دوسری صدی ہجری میں موجود کسی ایسی حدیث پر اعتراض کرنا جسے امام مجتہد نے دلیل بنایا ہے سراسر کج فہمی ہے کیونکہ متأخر کتب اور اسناد کی بنا پر خیرالقرون کے مستدلات کو بے اعتبار قرار دینے سے سارے دین پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے.

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین اسلام اور شریعت مصطفویؐ کا بنیادی ماخذ قرآن حکیم ہے. اگرچہ قرآن کے احکام کی تبیین اور ابلاغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذمہ داری اور فریضہ نبوت تھا لیکن قرآن میں اللہ نے جس طرح حفاظت اور جمع قرآن کو اپنی ذمہ داری بتایا اسی طرح قرآن کے بیان، تفسیر اور تشریح کو بھی اپنی ذمہ داری قرار دیا….. ثم إن علینا بیانہ (القیامۃ :19)…قرآن کا بیان بھی ہماری ذمہ داری ہے اور قرآن کا بیان سنت ہے، اس ذمہ داری کا تقاضا ہے قرآن کی طرح اس کا بیان بھی متواتر ہو ورنہ حفاظت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
قرآن کلیات اور اصول پر مشتمل ہے،جس میں عملی جہات( practical aspects )کی تفصیلات بیان کرنا ممکن تھیں نہ جزئیات کا استقصاء. اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بطور “اسوہ حسنہ” مبعوث کیا گیا. آپ نے شریعت کے تمام احکام عام اجتماعات میں زبانی اور عملی طور پر بیان فرمادیے۔

اس لئیے یہ کہنا درست ہے کہ شریعت مصطفویؐ کا تمام اساسی مواد متواتر ہے – – لیکن یہ تواتر معنوی ہے. صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اہل زبان تھے، انہیں الفاظ یاد کرنے کی چنداں حاجت نہیں تھی اس لیے آپ سے جو کچھ سنتے اور دیکھتے اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے اور اس کے مطابق عمل کرتے. محدثین کے ہاں تواتر سے تواتر لفظی مراد ہے جو ذخیرہ احادیث میں تقریباً عنقا ہوگیا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ سارا دین اور مکمل شریعت ہم تک تواتر سے پہنچی ہے اور یہ تواتر معنوی ہے۔
البتہ ،سنت کا ثبوت جہاں تواتر معنوی اور ابلاغ عام سے ہوتا ہے وہیں احادیث بھی سنت کے ثبوت کے لیے اساس بن سکتی ہیں. تشریعی امور میں فقہی اختلافات کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہاں اخبار آحاد کے ثبوت اور ان کے بارے میں معیارات کے اختلاف کو بھی اہمیت حاصل ہے. جس مسئلہ میں کتاب اللہ اور سنت متواترہ سے رہنمائی نہ مل رہی ہو اس میں خبر واحد کی طرف رجوع ایک فطری امر ہے.
اخبار آحاد سے سنت کے ثبوت کا مسئلہ عہد صحابہ سے ہی پیدا ہو گیا تھا۔خبر واحد کی قبولیت کے بارے میں کتاب اللہ نے دو ضابطے بیان کئے ہیں
رپورٹر کی ثقاہت (الحجرات:6)
خبر کی صداقت (النور:16)
اگر ان میں سے کسی پہلو سے بھی خبر واحد معیار پر پوری نہ اترتی ہو تو اسے بلا توقف رد کر دیا جاتا تھا۔ صحابہ کرام خبر واحد کی صحت جانچنے کے لیے ان دونوں امور کو ملحوظ رکھتے تھے. ان کے ہاں جن امور میں کتاب اللہ یا سنت متواترہ سے رہنمائی موجود ہوتی وہاں خبر واحد کی تلاش نہیں کی جاتی تھی جہاں کوئی رہنمائی میسر نہ ہوتی تو وہاں اجتہاد اور قیاس سے قبل خبر واحد تلاش کی جاتی تاہم انہوں نے کوئی ایسا Method ڈیزائن نہیں کیا تھا جس میں ہر روایت کو ڈال کر پرکھا جاتا بلکہ کبھی کسی مجتہد اور طویل الملازمہ صحابی سے پوچھ لیا جاتا، کبھی گواہی طلب کر لی جاتی اور کبھی قسم لی جاتی تاہم یہ امر طے تھا کہ جب کوئی روایت کتاب اللہ یا سنت متواترہ کے خلاف ہوتی تو اسے رد کر دیا جاتا۔

صحابہ کرام کا یہی طریق کار بعد میں باقاعدہ اخبار آحاد کو جانچنے کا معیار بنایا گیا اور یہ طے ہوا کہ کسی بھی روایت کے دونوں حصوں میں سے سلسلہ سند کو اصول روایت اور متن کو اصول درایت پر پرکھا جائے گا اور اگر خبر واحد دونوں معیارات پر پوری اترے تو اسے قبول کر لیا جائے گا مگر اس سے صرف علم ظنی حاصل ہوگا علم قطعی نہیں اس لئے یہ کتاب اللہ اور سنت متواترہ کو Replace نہیں کر سکے گا۔

اسلامی سماج کی تشکیل کی تحریک اس قدر پُرزور، متحرک اور ہمہ گیر تھی کہ صحابہ کرام جہاں ایک دوسرے سے بے تکلف روایات لے کر انہیں آگے روایت کر دیتے تھے وہیں جب کوئی روایت کتاب و سنت سے ہم آھنگ نہ پاتے تو اسے رد کر دیتے. اگرچہ اس دور میں احادیث کے رپورٹر صرف صحابہ کرام تھے پھر بھی کئی ایک احادیث کی authenticity چیلنج کی گئی جس پر ہم ان شاء اللہ نسبتاً تفصیل سے بات کریں گے تاہم اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ ان میں سے کسی پر دروغ گوئی کا الزام لگایا جاتا بلکہ اولا ً یہ بات سب جانتے تھے ہر شخص نے ہر روایت خود رسول اللہﷺ سے نہیں سنی ہوتی تھی بلکہ ایک دوسرے سے معلوم کر کے اسے روایت کرتے تھے. ان حالات میں احتیاط کی ضرورت تھی کیونکہ اسی معاشرے میں منافقین بھی رہتے تھے جو باقاعدگی سے تمام اسلامی امور میں شریک ہوتے نیز ہر فرد کے فہم روایت کا معیار مختلف تھا اور حافظے یکساں نہیں تھے سماجی پس منظر بھی اثر انداز ہوتا تھا، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ دین کی کوئی بھی بات کسی سے بھی لیتے ہوئے اس کی مکمل تصدیق کر لی جائے، تاہم چند فقہاء صحابہ کرام اس درجے کے تھے کہ ان کے بیانات کی تصدیق کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی تھی بلکہ ان کی طرف مراجعت کی جاتی جن میں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود اور سیدہ عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سب سے نمایاں تھے.

صحابہ کرام کے بارے میں یہ اصول کہ- الصحابۃ کلھم عدول_کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام معصوم تھے.بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی باہمی خانہ جنگیوں اور ایک دوسرے سے اختلافات کے باوجود وہ رسول اللہﷺ کی طرف کوئی جھوٹ منسوب نہیں کرتے تھے، یہی بات حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہی کہ کنا لا نتھم بعضنا بعضا الکذب. پس عدل سے مراد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تصریح کے مطابق “عدالت فی روایۃ الحدیث” ہے.

أخبار آحاد میں باہمی اختلافات!

اخبار احاد کو روایت و درایت کے اصول پر پرکھنے کے باوجود ایسا ممکن نہیں تھا ان میں کوئی مکینیکل یکسانی پیدا کی جا سکتی کیونکہ ان کا تعلق ایک زندہ سماج کے مختلف افراد کے متنوع حالات سے تھا، ان کے پس منظر مختلف تھے، ان کے مسائل گوناگوں تھے، ان کے نفسیاتی، روحانی، جذباتی اور سماجی حالات یکساں نہیں تھے اس لیے ضرورت تھی کہ مختلف لوگوں کو ایک ہی طرح کی صورت حال سے نکلنے کے لیے الگ الگ حل دیے جاتے. احادیث میں اسی قسم کا تنوع تھا، مثلاً کئی لوگوں نے آپ سے سوال کیا :

کون سا عمل سب سے افضل ہے؟
آپ نے ہر ایک کو الگ الگ جواب دیا۔۔۔کسی سے فرمایا :ایمان باللہ پھر جہاد فی سبیل اللہ پھر حج مبرور،کسی کو بتایا، بروقت نماز پھر والدین سے حسن سلوک،کسی کو بتایا، روزوں کی کثرت،کسی کو ذکر اللہ، دوسرے کو دعا، تیسرے کو حسن خلق، چوتھے کو طویل خامشی، پانچویں کو دوسروں کو اپنی اذیت سے محفوظ رکھنا، چھٹے کو لوگوں کو کھانا کھلانا، ساتویں کو تعلیم قرآن، آٹھویں کو صبر اور نویں کو خوش حالی کا انتظار کرنے کی تلقین کی گئی.

یہ تمام روایات روایتا ً اور درایتا ًدرست ہیں لیکن ان میں اختلاف سائلین کے حالات اور پس منظر کی وجہ سے ہے.غزوہ تبوک میں آپ نے صدیق اکبر سے ان کا سارا مال اور عمر فاروق سے ان کا نصف مال قبول فرما لیا لیکن دوسری طرف ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونے کی ڈلی لے کر آیا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔یاد رہے کہ ان اختلافات کا تعلق حالات اور افراد کے اختلاف سے ہے جسے اختلاف تنوع کہتے ہیں.
ہماری ابھی تک کی بحث تشریعی روایات سے متعلق ہے!
وضع حدیث کا سیلاب

فقہاء صحابہ کرام حدیث اور سنت کے فرق پر مکمل نگاہ رکھتے تھے. بے شمار ایسے واقعات ہیں جہاں انہوں نے کسی حدیث کو خلاف سنت ہونے کے باعث رد کر دیا یا اس کا محمل بتایا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی خاص موقع یا کسی فرد کے لیے رخصت، مخلص یا بیان جواز کے لیے کوئی بات کی تھی یا فہم راوی کا قصور تھا جسے سنت کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے(اگر کوئی سکالر چاہے تو ایسی احادیث کا ایک مجموعہ تیار کر سکتا ہے جنہیں سنت متداولہ کے مطابق نہ ہونے کے باعث صحابہ کرام نے قبول نہیں کیا) .

صحابہ کرام کے بعد دور تابعین میں مدینہ منورہ میں فقہاء سبعہ کی ایک کونسل تشکیل دی گئی جو جدید پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے کتاب اللہ اور سنت متداولہ کی روشنی میں فیصلے کرتی تھی. اس عنوان سے سنت ثابتہ کا اولین مجموعہ جو حدیث و سنت کے درمیان واضح خط امتیاز کھینچتا ہے امام مالک کی معروف کتاب الموطأ ہے.
فقہاء سبعہ کے طریق کار کے تتبع میں بعد میں کوفہ میں امام ابو حنیفہ نے مجلس تدوین فقہ کی تشکیل کی اور کتاب و سنت کی اساس پر مکمل فقہ مدون کر دی.۔۔۔

لیکن۔۔عام اہل علم کو حدیث اور سنت کے اس دقیق فرق کا نہ اس وقت ادراک تھا نہ اب تک ہو سکا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حدیث کی اہمیت کے پیش نظر لوگ علم حدیث کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑے اور جمع احادیث کے شوق فراواں اور صحیح و سقیم کے عدم امتیاز کے باعث امت وضع حدیث کے طوفان بلا خیز کا شکار ہو گئی.ابتدائی عہد میں علم حدیث کے حامل بے پناہ عزت، شہرت، دولت اور لوگوں کی توجہ حاصل کر لیتے تھے، اس کے لیے لوگ سفر کرتے، مال خرچ کرتے نتیجتاً ہزارہا لوگ اس دوڑ میں شامل ہوگئے.

وضع حدیث کے محرکات!

1-دینی جذبہ!

لوگوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کے لیے قرآن کی سورتوں کے فضائل یا مختلف آیات کی دنیوی اور اخروی برکات بیان کرنے کے لیے احادیث وضع کی گئیں اور وضع کرنے والے یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ ایک کار خیر کی طرف لوگوں کو متوجہ کر رہے ہیں اور یہ کام باعث اجر ہے.
2-ترغیب و ترہیب!

ایسی احادیث وضع کی گئیں جن میں برے کاموں کی خوفناک سزائیں اور اچھے کاموں کے بے پناہ اجر کا تذکرہ تھا. اسے کار خیر سمجھ کر کیا جاتا اور اس نوعیت کی بہت سی احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں بلکہ آج تک تبلیغی مقاصد کے لیے بلا تحقیق استعمال ہوتی ہیں. محدثین نے اس نوع کی احادیث کو قبول کرنے میں نرمی سے کام لیا. شاید ان کے ذہن میں یہ تھا کہ گناہ پر اگر اتنی سزا یا نیکی پر اتنا اجر نہ بھی ملا جو ان احادیث میں ہے تب بھی فی الجملہ برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی ترغیب میں کوئی قباحت نہیں ہے. اس نوعیت کی روایات بالعموم ایسے عابد، زاہد متقی اور مستجاب الدعوات افراد سے مروی ہیں جن کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ

ہمارے کچھ بھائی ایسے ہیں کہ اگر وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو ان کی دعا رد نہیں ہوتی لیکن ان کی عام شہادت پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا چہ جائے کہ ان سے حدیث لی جائے. یحیی بن سعید کے بقول :حدیث کی تحقیق میں نیکو کار راویوں سے زیادہ کوئی چیز دھوکے کا باعث نہیں. یحیی بن سعید القطان، ابن ابی الزناد اور امام مالک متفق ہیں کہ مدینے میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جن پر مالی معاملات میں ہر طرح کا اعتماد کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ایک حدیث میں بھی ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا. واقعہ یہ ہے کہ ایسے افراد پر تنقید کرنا ناممکن ہے لیکن یہ امام مالک ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو تشریعی احادیث تک محدود رکھا اور ایسی احادیث لینے سے اجتناب کیا جبکہ دوسرے محدثین اپنے آپ کو اس حد تک نہیں رکھ سکے.
3-شہرت کے حصول کے لیے!

علم حدیث کے عالم اور ہزاروں لاکھوں احادیث کے حامل مرجع خلایق ہو جانے کے باعث شہرت کی بلندیوں پر فائز ہو جاتے اور تعداد روایات میں ایک دوسرے پر سبقت ہی وجہ مفاخرت تھی جس کی وجہ سے شہرت کے خواہش مند لوگوں نے احادیث وضع کرنا شروع کر دیں، اس کے لیے وہ نہ صرف متون بلکہ اسناد بھی وضع کرتے تھے.

4-باطل عقائد کی تائید کے لیے!

جب خوارج، معتزلہ، مرجئہ اور شیعہ فرقے وجود میں آئے تو انہوں نے اپنے اپنے ائمہ اور عقائد کی حمایت میں احادیث وضع کیں. ان میں سے بیشتر احادیث کا تعلق تفسیر قرآن سے ہے. اس طرح انہوں نے تفسیری لٹریچر میں اپنے باطل عقائد و افکار داخل کر دیے.
5-سیاسی وجوہات!

ایسی احادیث جن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر استدلال کیا جاتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ، امیر معاویہ کے باہمی اختلافات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باہمی آویزش سے متعلق اکثر روایات موضوع ہیں. (یاد رہے کہ ویح عمار والی روایت متواتر ہے) اسی طرح یہ کہ جب خلافت بنو عباس کے پاس آ جائے گی تو ان سے براہ راست حضرت عیسی علیہ السلام کو منتقل ہوگی یا اپنے خلفاء کے تقدس کے بیان کے لیے مہدی کی روایات کا سیاسی پس منظر ہے.
6-رنگینی وعظ!

وعظ کو پر کشش اور اثر افرین بنانے کے لیے روایات و قصص کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے. واعظ، مبلغ اور مساجد میں قصہ گوئی کرنے والے بے تکلف روایات گھڑ لیتے تھے
7-حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے!

درباری علماء اپنے فاسق و فاجر حکمرانوں کی حرکات کو سند جواز بخشنے کے لیے احادیث وضع کر لیتے.
8-اسرائیلی روایات!

قرآن اور بائبل کا ماخذ ایک ہے اور بہت سے مضامین میں یکسانی بھی ہے. ایسے مواقع پر قرآنی اجمال کی اسرائیلی روایات سے شرح و تفصیل کرنا نہ صرف نو مسلم یہود علماء کے ہاں متداول تھا بلکہ کئی مسلمان ثقہ اہل علم بھی ان تفصیلات کو تفسیری روایات میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جو رفتہ رفتہ احادیث کے طور پر روایت ہونے لگتیں.
9-فرقہ واریت!

صرف اپنے فرقے کی تائید کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک خارجی اور رافضی کا بیان نقل کیا گیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے حلت و حرمت کے احکام کی احادیث بھی وضع کر لیتے
وضع حدیث کا رجحان اس قدر وبائی شکل اختیار کر گیا تھا کہ موضوع روایات اور وضاعین کے تذکروں پر مستقل کتابیں لکھی گئیں.
اس فتنے کے سد باب کے لیے کیا کِیا گیا۔
عہد صحابہ میں احادیث رسول مدون نہیں کی گئیں کیونکہ شروع میں آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا تا کہ کتاب اللہ اور احادیث باہم نہ ہو جائیں. عصر تابعین کے آخر میں جب علماء کرام مختلف شہروں میں پھیل گئے، خوارج، روافض اور قدریہ کے افکار رونما ہوئے تو احادیث و آثار کی تدوین شروع ہوئی.
سب سے پہلے ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ نے ہر باب الگ الگ تالیف کیا پھر طبقہ ثالثہ نے احادیث احکام مدون کیں جن میں اہل حجاز کی صحیح روایات کو اقوال صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے فتاوی کے ساتھ ملا کر امام مالک نے موطا تالیف کی. مکہ میں ابو محمد عبدالملک بن جریج نے، ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں، سفیان ثوری نے کوفہ میں، حماد بن سلمہ نے بصرہ میں فقہ السنہ سے متعلق کتب تالیف کیں.

اس کے بعد علماء نے سوچا کہ احادیث رسول کو الگ سے تحریر کیا جائے، یہ سن 200ہجری کے آغاز کی بات ہے. اس دور میں عبیداللہ بن موسی کوفی، مسدد بن مسرھد، اسد بن موسی اموی اور نعیم بن حماد خزاعی مصری نے اپنی اپنی مسانید مدون کیں. اس کے بعد شاید ہی کوئی حافظ یا امام حدیث ایسا ہو جس نے اپنی مسند نہ لکھی ہو جیسے احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ چونکہ دینی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک آسان اور یقینی عزت و توقیر کا میدان تھا اس لیے تمام تر توجہ جمع و تدوین پر مرکوز ہوگئی اور کوئی بھی نووارد اپنے چند ایک اساتذہ کے مجموعوں کو یک جا کر کے بآسانی ایک نئی تالیف مارکیٹ میں لا سکتا تھا اس لیے زیادہ توجہ کثرت روایات پر مبذول رہی. ان محدثین میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ابواب کی بنیاد پر مسانید مرتب کیں مثلا ابوبکر بن ابی شیبہ.

امام بخاری نے جب اس سارے موجود لٹریچر کا علم حاصل کیا، تالیفات دیکھیں، انہیں روایت کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان تالیفات میں اعلی درجے کی مستند ترین احادیث سے لے کر ضعیف اور موضوع تک سبھی کچھ موجود ہے. انہوں نے یہ سوچا کہ ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس کی صحت پر اعتماد ہو. ان کے استاذ اسحاق بن راہویہ کے کمنٹس نے ان کے رہوار شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور انہوں نے چھ لاکھ اسناد سے منتخب کر کے یہ مجموعہ تیار کیا جس میں لگ بھگ 2500 احادیث ہیں (صحيح بخاری پر ان شاء اللہ الگ سے گفتگو کی جائے گی) امام بخاری کا اصل مقصد صحیح احادیث جمع کرنا تھا اس لیے انہوں نے اس کا نام “الجامع الصحيح المسند من حدیث رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم و سننہ و ایامہ” رکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف سنن یعنی تشریعی روایات کی حامل ہی نہیں بلکہ اس میں عہد نبوی کی تاریخ بھی مذکور ہے اور الجامع ہونے کے باعث دیگر کئی علوم بھی اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں.

اسی دور میں دیگر کئی ایک مولفین نے اپنے اپنے مجموعہ احادیث مدون کیے جن میں سے چھ مجموعے ایسے ہیں جنہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے جو اہل السنہ کے ہاں احادیث کے مستند ترین مجموعے ہیں.

ان مولفین کو اصل چیلنج واضعین حدیث کی طرف سے تھا، اس لیے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ سلسلہ اسناد اور ان میں آنے والے رواۃ کی جرح و تعدیل پر مرتکز رکھی کیونکہ اسی طرح وہ صحیح اور موضوع روایات کو الگ الگ کر سکتے تھے. مولفین صحاح ستہ نے قبول روایت کے لیے اپنی اپنی تالیفات میں راویوں کی اہلیت کے اپنے اپنے معیار مقرر کیے جن میں سب سے کڑا معیار امام بخاری نے مقرر کیا کہ صرف اس راوی کی روایت قبول کی جائے گی جس کی اپنے سے اوپر کے راوی سے ملاقات ثابت ہو لیکن امام بخاری ملاقات کے ثبوت کے لیے خارجی شواہد کی تلاش نہیں کرتے بلکہ خود راوی کے الفاظ “حدثنا یا أخبرنا” کو ملاقات کی تصدیق کے لیے کافی سمجھتے ہیں. ارباب منطق اس استدلال کو مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں اور اسے دلیل نہیں مانتے. امام مسلم نے بھی بخاری کی اس شرط پر دوسری وجوہ کی بنا پر تنقید کی ہے.

ان مؤلفات میں سنن متداولہ یعنی تشریعی روایات اور غیر تشریعی روایات کو جمع کر دیا گیا. ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو وہ فقہاء مجتہدین اور ان کے تلامذہ نے پہلے سے مدون کردی تھی اور تشریعی روایات کے اخذ و قبول کا عمل مکمل ہو گیا تھا.

تشریعی روایات کا اختلاف (مثلا وضو، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور دیگر شرعی مسائل میں فقہی اختلافات) صحت اور وضع کا اختلاف نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے سماجی اور علاقائی مکاتب فقہ کی ترجیح کا اختلاف تھا کیونکہ سنت کے اختلافات کے بارے میں یہ طے شدہ امر تھا کہ ان میں اختلاف تضاد نہیں بلکہ اختلاف تنوع ہے، یہی وجہ ہے کہ عباسی خلفاء کے اصرار کے باوجود امام مالک نے اپنی فقہ سارے ملک میں رائج کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ کہا کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں آباد ہونے والے صحابہ کرام اور تابعین کے طرز عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بجا طور پر سنت ہے
گزشتہ اقساط میں اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جسے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے أمر دین کے طور پر سماج میں رائج فرمایا اور زبانی اور عملی طور پر اس کی تعلیم و تربیت دی،جبکہ حدیث اس قول، فعل اور تصویب کا نام ہے جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ہے اور جس کے ثبوت کے متعدد معیار مقرر ہیں. ابتدائی صدیوں میں ہی ایسے لوگ بکثرت پیدا ہو گئے جنہوں نے حدیث رسول کے تقدس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مشن کے طور پر اپنے باطل عقائد، افکار اور نظریات کو احادیث کے قالب میں بیان کرنا شروع کر دیا جس کی روک تھام کے لیے علماء اسلام نے یہ طے کیا کہ جو شخص بھی کوئی حدیث بیان کرے اسے سند کے ساتھ بیان کرے یعنی یہ بتائے کہ اس نے کس سے سنی اور اس کے استاذ نے کس سے اور یہ سلسلہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم تک مسلسل بیان کیا جائے.

سلسلہ سند کے چلن کے باعث ضرورت محسوس ہوئی کہ ان ہزار ہا لوگوں کے حالات سے آگاہی حاصل کی جائے جو رواۃ حدیث ہیں. ان کے حالات جاننے اور قلمبند کرنے کے لیے ایک الگ موضوع علم وجود میں آیا جسے علم جرح و تعدیل کہتے ہیں. اگرچہ احادیث وضع کرنے والے زیادہ چالاک تھے اور انہوں نے صرف متون حدیث text of traditions ہی نہیں وضع کیے بلکہ ایسی اسناد chains of narrators بھی ان کے ساتھ نتھی کر دیں جن پر کوئی اعتراض نہ کیا جا سکے تاہم محدثین نے بلاشبہ محیر العقول کاوشیں کر کے انسانی بساط کی حد تک اسناد کے پہلو سے احادیث کے بارے میں ممکنہ اطمینان حاصل کرنے کی سعی کی ہے.

اسناد کی بنا پر احادیث کو وحی کا تقدس دینے کے حوالے سے یہ امر پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ جن ائمہ حدیث نے علم جرح و تعدیل کی اساس پر اپنی تالیفات مدون کیں انہوں نے در حقیقت سنت متداولہ پر نہیں بلکہ تاریخ پر اپنی تالیفات کی بنیاد رکھی کیونکہ جرح و تعدیل کا مفہوم یہ ہے کہ آپ شخصیات کے احوال و آثار اور سیر و سوانح کا مطالعہ کر کے ان کے قابل اعتماد یا بے اعتبار ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں. سوانحی ادب تاریخ کی قسم ہے نہ کہ وحی کی. یہی وجہ ہے کہ جب کسی حکم شرعی کا تمام تر دار و مدار ایک راوی پر آ جاتا ہے اور حدیث خبر واحد ہو جاتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخی معلومات کی بنا پر حکم شرعی ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں؟

اس امر کے شواہد ہمیشہ انسانی سماج میں موجود رہے ہیں اور عہد نبوی اور عہد صحابہ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ ایک شخص کے بیان پر اعتماد کر لیا گیا لیکن اس کے لیے circumstantial evidence کا مطالعہ کرنے کا بھی معمول رہا ہے اور اعتماد کے دوسرے ذرائع کے حوالے سے تحقیق کا بھی. اس کے باوجود اس خبر کو وہ حیثیت حاصل نہیں تھی جو سنت متداولہ کو ہوتی تھی.
یوں بھی کسی منفرد راوی کے بیان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالة قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر نبی کو منصب نبوت کا اعتبار دے دیا جائے، جو ارباب دانش کی نظر میں ہمیشہ محل نظر رہا ہے.

رواۃ کی جرح و تعدیل کے بارے میں ائمہ حدیث کے فیصلے اجتہادی فیصلے ہیں. اگر ان اختلافات کا موازنہ کیا جائے جو ان ائمہ کرام کے درمیان مختلف شخصیات کا مرتبہ اور حیثیت متعین کرنے میں کتب جرح و تعدیل میں مذکور ہیں تو شاید قرن اول اور عہد تابعین کی اکثریت ہی جرح سے محفوظ ملے گی، جوں جوں ہم سلسلہ سند میں نیچے اترتے جائیں گے تو محسوس کریں گے کہ”شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا”۔۔۔

مثال کے طور پر امام حاکم وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے صحیح بخاری کے بارے میں یہ رائے دی کہ “کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب یہی ہے” پھر اس کے تکملہ اور تتمہ کے طور پر المستدرک لکھی تاکہ اسے بھی وہی مقام حاصل ہو جائے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نے ایسی روایات بھی درج کر دی ہیں جن کے بالائی راوی بخاری کے راوی ہیں اور زیریں راوی وضاع و کذاب ہیں.
اس موقع پر میں متعدد اساطین امت کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کی ناگوار آرا ذکر کر کے قارئین کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تاہم اہل علم جانتے ہیں کہ کوئی بھی امام مجتہد اور محدث کبیر مکمل طور پر جرح سے بالاتر نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں کہ ایسے بیانات حسن عقیدت، سوء ظن، قلت و کثرت معلومات سے بالا تر نہیں ہوتے.