میاں بیوی کے آداب

امام خمینی کی بیوی خدیجہ صقافی کہتی ہیں کہ۔۔۔

خمینی جب بھی صلوۃ الیل (تہجد) کے لئے اٹھتے مجھے پتہ نہیں چلتا کیونکہ میرے آرام کی خاطر وہ لائٹ نہیں جلاتے تھے، وضو کرنے جاتے تو نل کے نیچے ایک فوم (Sponge) رکھ دیتے تاکہ پانی کی آواز سے میری نیند نہ خراب ہو۔۔۔۔۔

وہ کہتی ہیں کہ آغا نے مجھے ہمیشہ کمرے میں بہتر جگہ آرام کے لیے پیش کی۔ جب تک میں دسترخوان پر نہیں آجاتی وہ کھانا شروع نہیں کرتے تھے اور یہ ہی تلقین بچوں کو کرتے کہ پہلے تمھاری ماں کو آنے دیا کرو پھر کھانا شروع کرو۔۔۔۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں کمرے میں داخل ہوئی ہوں اور آغا نے مجھے دروازہ بند کرنے کا کہا ہو۔ جب میں دروازہ بند کرنا بھول جاتی تو میرے بیٹھ جانے کے بعد وہ خود اٹھ کر دروازہ بند کر دیتے۔

امام خمینی کی بیٹی صدیقہ کہتی ہیں کہ آغا جان والدہ کی غیر معمولی عزت کیا کرتے تھے، اور صرف والدہ ہی نہیں وہ ہمیں بیٹیوں کو بھی غیر معمولی عزت دیا کرتے تھے حتیٰ کہ بیٹوں سے بھی پانی مانگنا مناسب نہیں سمجھتے تھے اور خود اٹھ کر پانی پیتے۔ آغا جان زندگی کے آخری دنوں میں جب شدید علیل تھے اس وقت بھی والدہ کا خیال اپنے آپ سے زیادہ رہتا تھا۔ آنکھ کھولتے اور اگر کچھ بولنے کے قابل ہوتے تو پوچھتے “خانم کیسی ہے؟” ہم بتاتے وہ اچھی ہیں انھیں بلائیں؟ تو منع کردیتے کہ اسے آرام کرنے دو۔ اس کی کمر میں تکلیف ہوگی!

کیا فقط امام خمینی پر اخلاق اسلامی و انسانی اور ادب و آداب کی پیروی لازم تھی؟ ہم ہر اخلاقی قدر سے خود افضل کیوں سمجھتے ہیں؟ عورت (خصوصًا بیوی، بیٹی، بہن، ماں) کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید سب کے لیے ہے۔

اچھی بات پر واہ کرنے کے ساتھ اگر وہ بات خود میں نہ پائیں تو خود کے لیے آہ بھی کرنی چاہیے۔

— حافظ صفوان کا انتخاب