حقوق العباد کی تھیلیاں کپڑے سے بنا لیں

حقوق العباد کی تھیلیاں کپڑے سے بنا لیں. آپ کو پتہ ہے دکان سے ایک پاو دہی یا کلو مرغی آپ جن دو پلاسٹک شاپنگ بیگ میں لاتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں اسے واپس مٹی ہونے میں کتنا عرصہ لگتا ہے.؟ مختلف علاقوں کے مختلف موسمی اور زمینی کیفیت پر یہ چار سو سے ایک ہزار سال بنتے ہیں. اور آپ کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ تقریباً ایک ٹریلین سے زیادہ شاپنگ بیگ دنیا میں سالانہ بنتے ہیں. جو تقریباً دو ملین پلاسٹک شاپنگ بیگ ہر منٹ کا حساب بنتا ہے.

آج آپ بس میں سفر کریں یا کار و ٹرین میں جہاں بھی جائیں گے پلاسٹک کا کچرا ہر جگہ ہے. دور دراز کے خوبصورت پہاڑ بھی اس غلاظت سے محفوظ نہیں ہیں. یہی پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ کر جب چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں تو قابل کاشت زمین کو بنجر کرتے ہیں. مویشی اور پرندے نا سمجھی میں کھا کر مر رہے ہوتے ہیں سمندری مخلوق اس کے ہاتھوں مررہی ہے. ساحلوں سے اب دور بھی یہ سمندر میں جگہ جگہ ڈیڈ زون بنا رہی ہے.

دیکھیں یہ ملین بلین پلاسٹک کے استعمال کا حساب بہت مشکل ہے. کتنا ری سائیکل ہوا کتنا جلا کر ہوا کو بیمار کیا اسے سمجھنا بھی آسان نہیں. ہاں آسان یہ ہے کہ ہم یہ اطمینان حاصل کریں ان پلاسٹک کے بڑے بڑے بنے ڈھیروں میں ہمارا حصہ نہیں. سمندر میں کسی مچھلی کے گلے میں پھنسا کوئی شاپنگ بیگ ہم نے نہیں پھینکا. کوئی معصوم گائے یا بکری جو پلاسٹک کھا گئی وہ ہم نے نہیں پھینکا. جلتے پلاسٹک کے دھوئیں سے بیمار کوئی بچہ جو ہسپتال لے جایا جا رہا ہے اس میں ہمارا کردار نہیں.

ہم لوگوں اور ماحول کو اذیت دینے والے نہ کہلائیں یہی حقوق العباد ہے. آئیں حقوق العباد کی تھیلیاں کپڑے سے بنا لیتے ہیں. دنیا اپنا اپنا حساب اور اسکا جواب دے. ہم صدقہ جاریہ نہ کر پائے تو کم از کم صدیوں تک بنے اس عذاب جاریہ کا حصہ بھی نہ بنیں.

( ریاض علی خٹک)