ٹی وی کے ذریعہ تبلیغ دین جائز نہیں

محدث عصر حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوری صاحب، روایت حضرت مولانا تقی عثمانی صدر مفتی دار العلوم کراچی

1977 کی بات ہے کہ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اسلامی مشاورتی کونسل کے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے کراچی سے اسلام اباد تشریف لائے۔
اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کی تیسری نشست میں بعض حضرات نے حضرت بنوری رحمہ اللہ سے فرمائش کی کہ آپ ٹیلیویژن پر خطاب فرمائیں۔ آپ نے ٹیلیویژن پر خطاب کرنے سے معذرت فرما دی۔ اسی دوران غیر رسمی طور پر یہ گفتگو بھی آئی کہ فلموں کو مخرب اخلاق عناصر سے پاک کر کے تبلیغی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے۔

اس سلسلہ میں ایک اصولی بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ہم لوگ اللہ تعالی کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بنا کر چھوڑیں۔ ہاں اس بات کے ضرور مکلف ہیں کہ تبلیغ دین کے لئے جس قدر جائز ذرائع و وسائل ہمارے بس میں ہیں ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کر دیں۔ اسلام نے ہمیں جہاں تبلیغ کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ کے با وقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں۔ ہم ان طریقوں اور آداب کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں۔
اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو عین مراد ہے۔ لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ نا جائز ذرائع اختیار کر کے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور آداب تبلیغ کو پس پشت ڈال کر جس جائز و نا جائز طریقہ سے ممکن ہو ہم لوگوں کو ہم نوا بنانے کی کوشش کریں۔ اگر جائز وسائل کے ذریعہ اور آداب تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو بھی دین کا پابند بنا دیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کر کے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ کیونکہ دین کے احکام پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی ہے۔
فلم اپنے مزاج کے لحاظ سے بذات خود اسلام کے احکام کے خلاف ہے۔ لہذا ہم اس کے ذریعہ تبلیغ کے مکلف نہیں ہیں۔
اگر کوئی شخص جائز اور با وقار طریقوں سے ہماری دعوت کو قبول کرتا ہے تو ہمارے دیدہ و دل اس کے لئے فرش راہ ہیں۔ لیکن جو شخص فلم دیکھے بغیر دین کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو تو اس کو فلم کے ذریعے دعوت دینے سے ہم معذور ہیں۔ اگر ہم یہ موقف اختیار نہ کریں تو آج ہم لوگوں کے مزاج کی رعایت سے فلم کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں گے۔ کل بے حجاب خواتین کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اور رقص و سرور کی محفلوں سے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس طرح ہم تبلیغ کے نام پر خود دین کے ایک ایک حکم کو پامال کرنے کے مرتکب ہوں گے۔

اس واقعہ کے راوی حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم جو اس سفر میں حضرت بنوری رحمہ اللہ کے رفیق تھے یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں

یہ کونسل میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی آخری تقریر تھی اور غور سے دیکھا جائے تو یہ تمام دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی آخری وصیت تھی جو لوح دل پر نقش کرنے کے لائق ہے۔

شکریہ ماہنامہ الاسلام برطانیہ، محرم الحرام 1419ھ، مطابق مئی 1998ء۔ ضرب مؤمن 32، 20 تا 26 ربیع الثانی 1419ھ، مطابق 14 تا 20 اگست 1998ء۔

—– مفتی محمد زاہد کی فیس بک پوسٹ