یہ وہ حسرت بھری خواہش ہے جس کا اظہار ایک مخصوص حلقے کی طرف سے مسلسل کیا جاتا ہے۔ گویا یہ ملک جناح کے ضد نے بنائی اس کی ضرورت نہیں تھی، مسلمان متحدہ ہندوستان میں آسودہ تھے، آزاد کی حیثیت کانگرس میں فیصلہ کن تھی۔ آئیے ذرا اس پر ایک نظر دوڑاتے ہیں کہ “اگر مولانا آزاد کی مانی جاتی” جو جناح کی انتہا پسندی کی نظر ہوگئی۔۔ساتھ ایک ” دلیل” یہ بھی دی جاتی کہ دیکھیں بنگال کے علیحدہ ملک بننے پر جناح کی بصیرت تو ویسے بھی مشکوک ہو گئی۔
۔۔
بنیادی بات مسلمانوں کے خدشات تھے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں اکثریتی ہندو کمیونٹی کے رحم و کرم پر ہونگے اگر ساتھ رہیں تو مسلمانوں کو ٹھوس سیف گارڈز دینے پڑیں گے۔ مزے کی بات ہے اس سٹیج پر جناح اور آزاد کی رائے ایک ہی تھی دونوں سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے خدشات درست ہیں حل دونوں کا مختلف تھا۔
۔
02 اگست 1945 کو اس مسئلے بارے کافی سوچ و بچار کے بعد آزاد نے گاندھی کو ایک خط لکھا جس کا تذکرہ امام الہند اپنی کتاب میں گول کر گئے، (بحوالہ ٹرانسفر آف پاور جلد پنجم ) خط کے اہم نقطے درج ذیل ہیں
۔
مسلمان کی حیثیت سے اس نے پاکستان کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ وہ اسے مسلمانوں کے مفاد کے منافی سمجھتا ہے۔پاکستان کو ماننا شکست خوردگی کی علامت ہے،تاہم مسلمانوں کے خدشات رفع کرنا ضروری ہے،کیونکہ وہ حقیقی ہیں آزاد نے جو تجاویز گاندھی کو بھجوائیں ان کا نقشہ قابلِ توجہ ہے
(1) ہندوستان کے مستقبل کا آیئن وفاقی طرز کا ہونا چاہیئے جس میں مرکزی حکومت کے پاس صرف وہی شعبے ہونے چاہیئں،جنہیں وفاقی یونٹ دینے کے لیئے تیار ہوں
(2) یونٹوں کو علیحدگی اختیار کرنے کا حق ہونا چاہیئے
(3) مرکز میں مخلوط انتخابات ہوں اور صوبوں میں بھی،لیکن صوبوں میں نشستیں مخصوص ہونی چاہیئں۔جب تک پارٹیاں معاشی اور سیاسی بنیادوں پر منظم نہیں ہوتیں اور فرقہ وارانہ خدشات رفع نہیں ہوتے اس وقت تک مرکزی اسمبلی اور مرکزی ایگزیکٹو میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی نمائندگی دی جائے
۔
16 اگست کو گاندھی اس خط کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ کو اس معاملے خاموش رہیں
“میں نے آپ کے خط سے یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ آپ میرے ہندوؤں کے بارے میں لکھ رہے ہیں آپ کے دل میں جو کچھ ہے تحریر اس کی عکاسی نہیں کرتی،پریشان نہ ہوں اگلی ملاقات میں ہم اس موضوع پر گفتگو کریں گے اگر آپ کی خواہش ہو گی تب۔ آپ فرقہ وارانہ مسئلے کے بارے میں جو کچھ بھی کہنا چاہیں میرے اور ورکنگ کمیٹی کے مشورے کے بغیر ہر گز نہ کہیں۔میری رائے میں خاموش رہنا بہتر ہے۔پارٹی آپ سے مشورے کے بعد اپنی رائے دے سکتی ہے۔انہیں اس کا حق حاصل ہے۔یہ ان کا فرض ہے۔میری رائے آپ سے مختلف ہے ،میں کسی کام کو بھی جلدی میں کرنا پسند نہیں کرتا”
۔
گاندھی کے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایچ ایم سیروائی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے آزاد کے خط کا جو حشر کیا،ہمیں معلوم نہیں۔البتہ کانگریس کے کسی ریزولیشن میں بھی آزاد کے اس فارمولے کا کوئی ذکر نہیں “(بحوالہ مینن صفحہ نمبر 224 مینن نے گاندھی کے جواب کا ذکر نہیں کیا۔ٹنڈولکر کی کتاب مہاتما میں آزاد کے خط اور گاندھی کے جواب کا ذکر موجود ہی نہیں نہ ہی آزاد نے اپنی کتاب میں اس خط اور گاندھی کے جواب کا حوالہ دیا ہے)”
۔
آگے چلتے ہوئے دیکھتے ہیں کیبینٹ مشن ہندوستان آتا ہے اس میں آزاد مشن سے ملاقات میں تقریبا وہی باتیں کرتا ہے جو اس نے گاندھی کے نام اپنے خط میں لکھی ہیں اس میں ذاتی حیثیت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سپرو کمیٹی کی رپورٹ میں کم سے کم ایک ایسی تجویز موجود ہے جو قابل غور ہے جسے بحث و تمحیص کی گرمی میں پسِ پشت ڈال دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق مرکز میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مساوی نمائندگی کے اصول پر حکومت بنائی جانی تھی اور انتخابات مخلوط ہونے تھے۔۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس تجویز پر مزید غور ہونا چاہیئے۔” ( سپرو ایک ہندو ماہر آئین و قانون تھے )
۔
آزاد کے ساتھ ساتھ نیشنلسٹ مسلمانوں نے بھی یہی حل پیش کیا (بحوالہ ٹرانسفر آف پاور)
۔
“کرپس اور الیگزینڈر نے نیشنلسٹ مسلمانوں کے نمائندوں سے ( مولانا حسین احمد مدنی ،صدر آل انڈیا مسلم پارلیمنٹری بورڈ، ظہار الدین، صدر آل انڈیا مومن کانفرنس، شیخ نظام الدین،صدر آل انڈیا احرار، عبد المجید خواجہ، صدر آل انڈیا مسلم مجلس، حسین بھائی لالجی صدر آل پارٹیز شیعہ کانفرنس) 16 اپریل 1946 کو ملاقات کی۔مولانا مدنی نے کہا کہ وہ ایک مرکزی حکومت اور ایک دستور ساز اسمبلی کے حق میں ہیں۔مرکزی حکومت اور مرکزی دستور ساز اسمبلی میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو یکساں نمائندگی دی جائے۔مخلوط انتخابات ہوں لیکن نشستیں مخصوص ہوں۔اظہارالدین نے کہا کہ مرکزی حکومت میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں پیرٹی ہونی چاہیئے۔حسین نے بھی اس تجویز کی حمایت کی۔ (بحوالہ ٹرانسفر آف پاور جلد ہفتم صفحہ 286-87)
۔
لیکن اپنے پچھلے مؤقف کے برعکس آزاد 06 مئی 1946 کو پیتھک لارنس کو ایک خط لکھتے ہیں ۔”ایک اور اہم بات جو ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم حکومت یا قانون ساز اسمبلی میں گروہوں کی مساوی نمائندگی کی تجویز قبول نہیں کرتے۔
۔
اسی طرح 09 مئی 1946 کو آزاد کےلکھے گئے ایک اور خط کا سیروائی حوالہ دیتے ہیں
“ہم حکومت اور مقننہ دونوں میں مساوی نمائندگی کے سخت خلاف ہیں کیونکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی تعداد میں واضح تفاوت ہے۔یہ بے انصافی ہے اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔اس طرح کی شق تصادم کے بیج بونے کے مترادف ہے۔اگر اس اصول یا کسی اور ایسے اصول پر سمجھوتہ نہ ہوسکے تو ہم ان معاملات کو کسی ثالث کے سپرد کرنے کو تیار نہیں”
اس سے ایک دن قبل گاندھی کرپس کو اپنے لکھے گئے خط میں مساوی نمائندگی پر ان الفاظ میں اعتراض کرتے ہیں
“اصولی طور پر چھ ہندو اکثریتی صوبوں اور پانچ مسلمان اکثریتی صوبوں میں مساوی نمائندگی کی راہ میں ایک ناقابل عمل رکاوٹ حائل ہے۔مسلمان اکثریتی صوبے صرف نو کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں ،جبکہ چھ ہندو اکثریتی صوبے 19 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ صورت حال پاکستان سے بھی بد تر ہے۔اس لئے مرکزی قانون ساز اسمبلی اور ایگزیکٹو کو آبادی کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے۔”
۔
جناح کی بات ایک لمحے کے لئے چھوڑتے ہیں اور ایک لمحے کے لئے فرض کرتے ہیں ان کا حل (یعنی پاکستان انتہا پسندانہ تھا جس نے مسلمانوں کو تقسیم کیا ورنہ آج بنگلہ دیش ہندوستان اور پاکستان کے مسلمان مل کر ہندوستان پر حکمران ہوتے) جو حل مولانا آزاد خود تجویز کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو لے کر دلوانا تو دور کی بات ہے، بحیثیت صدر کانگرس ، وہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں اس پر بات تک نہیں کرا سکے ۔
۔
دوسری بات جو بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کو دلیل بناتے ہیں کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ جناح کی بصیرت مشکوک تھی وہ ذرا تحقیق کی عادت ڈالیں اور ٹرانسفر آف پاور کے ڈاکیومنٹس ہی پڑھ لیں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ جناح موجودہ پاکستان کو کٹا پھٹا پاکستان کہتے آئے اور مسلسل پورا بنگال اور پورا ہندوستان لینے کی بات کرتے رہے یہ سوال تو “سیکولر کانگرس” سے بنتا ہے (کہ چلو رجعت پسند جناح کا دوقومی نظریہ تو سراسر غلط تھا جس میں وہ چاہتے تھے کہ مسلم اکثریتی علاقے اور ہندو اکثریتی علاقے علیحدہ ملک بنیں جہاں دونوں ملکوں میں ایک معقول تعداد مسلم اور ہندو اقلیتوں کی بھی ہو گی ) کہ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر زبردستی صوبوں کی تقسیم کیوں کرائی جس کی “رجعت پسند” جناح نے آخری دم تک شدید مخالفت کی۔ ذرا پٹیل کا یہ خط پڑھیں جو اس نے کانجی کو لکھا ہے یہ کیبینٹ مشن کا پاکستان آنے سے پہلے کی بات ہے اس سے کانگریس کے عزائم کا پتہ چلتا ہے
۔
“بلاشبہ لیبر حکومت نے ہمارے لیئے اور دنیا کے سامنے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دیا ہے لیکن ان کے بیان سے سردست یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا۔لیکن مجھے پھر بھی تمھاری طرح قطعی مایوسی نہیں ہے۔ مسلم لیگ وہاں وزارت بنانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو سال سوا سال سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔اگلے جون سے قبل یقینی طور پر دستور تیار ہو جائے گی۔اگر لیگ نے پاکستان پر اصرار کیا تو پھر ایک ہی صورت رہ جائے گی کہ پنجاب اور بنگال کا بھی بٹوارہ کیا جائے۔وہ لوگ خانہ جنگی کے بغیر تو پورا پنجاب اور پورا بنگال ہر گز نہیں لے سکیں گے۔میں نہیں سمجھتا برطانوی حکومت تقسیم ہند پر راضی ہو گی،وہ سب سے زیادہ طاقت ور پارٹی کو زمام حکومت سپرد کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور اگر اس نے یہ بھی نہ کیا تو تقسیم کا مطالبہ تسلیم کرانے میں وہ کسی اقلیت کی مدد نہیں کرے گی۔پھر یہ بھی تو ہے کہ مشرقی بنگال، پنجاب کا ایک حصہ، سندھ اور بلوچستان کو چھوڑ کر باقی ہندوستان کی ایک مرکزی حکومت اتنی طاقتور ہو گی کہ بقیہ حصے مجبور ہو کر اس میں شامل ہو جایئں گے”
“
نومبر 1949 میں بھارت کی آیئن ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پٹیل نے بتایا کہ ہم نے تقسیم کو قبول کرنے کے لیئے جہاں پنجاب و بنگال کی تقسیم اور دو ماہ کے اندر اندر اقتدار کی منتقلی کی شرائط عائد کی تھیں وہاں یہ شرط بھی رکھی تھی کہ” برطانوی حکومت ہندوستانی ریاستوں کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑائے گی۔ہم خود اس معاملے سے نمٹ لیں گے۔یہ ہم پر چھوڑ دیا جائے۔آپ کسی کی طرفداری مت کریں۔” “
اس سے کیا پتہ چلتا ہے؟ یہی کہ پاکستان اگر بن رہا ہے تو ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ جناح کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے اور اسے اتنا بے بس کردینا ہے کہ وہ چند سالوں کے اندر اندر ہندوستان کا حصۃ بننے پر مجبور ہو جائے۔
۔
جناح نے تو بنگال کے معاملے ایک حل پر اتفاق کر لیا کہ اگر مجھے کلکتہ نہیں دیتے تو میں ادھورا بنگال لے کر کیا کرونگا ، ٹھیک ہے بنگال کو علیحدہ ملک بننے دیا جائے ہم بنگال کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے۔ لیکن اس کو بھی ہندو لیڈڑ شپ نے ناکام بنا دیا اور اس عظیم مہاتما نے جس کی سیاست ہمیشہ “جمہوری” اور “مذہبی تعصب” سے بالاتر رہی تھی۔ پیارے لال کے مطابق باپو نے کہا کہ اگر بنگال علیحدہ ملک بنتا ہے تو وہاں کی 45 فیصد ہندو اقلیت، جو سیاسی ، معاشرتی اور معاشی حوالے سے 55 فیصد مسلم اکثریت سے کہیں آگے تھی، اس کے لئے انتظامیہ اور مقننہ میں دو تہائی اختیارات مانگتا ہے اور کل ہند سطح پر کہیں زیادہ پسماندہ 25 فیصد مسلم اقلیت کو وہ اختیارات دینے تک کو تیار نہیں تھا۔
۔
بنگال کی علیحدگی تو چھوڑیں ، ہندو لیڈر شپ کے عزائم اور کوششوں کو دیکھتے ہوئے موجودہ پاکستان کا سروایئو کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اسی لئے تو ماؤںٹ بیٹن اور ریڈکلف کو ملا کر پنجاب کاٹ کر کشمیر کے لئے راستہ بنایا گیا ، موجودہ کے پی میں باپو نے باچا خان کو استعمال کیا ۔بنگال کی علیحدگی سے جناح کی بے بصیرتی ڈھونڈنے والوں کو خبر ہو کہ جناح تقسیم کے وقت سے ہی علیحدہ ملک ماننے پر تیار تھے اور بنگال کو کاٹنے کا منصوبہ بھی اسی لئے بنایا گیا تاکہ بنگالی لیڈر شپ جناح سے متنفر ہو کر جناح کا ساتھ چھوڑ دیں۔
۔
اس لئے “کاش آزاد کی بات مانی جاتی” کی دہائی دینے والوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ ثابت کریں کہ آزاد ہمیں یعنی مسلمانوں کو کیا لیکر دلوانا چاہ رہے تھے جو جناح کی انتہا پسندی کی نظر ہوگئی اور بنگال کی علیحدگی سے جناح کی بصیرت پر شک کرنے والوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ اگر جناح کی طرح ، مہاتما اور ہندو لیڈر شپ اسی وقت بنگال کو علیحدہ ملک بنانے پر مان جاتی تو آج جناح کو بے بصیرت ثابت کرنے کے لئے وہ کیا اور کہاں سے دلیل ڈھونڈ کر لاتے؟؟
۔
اس تحریر کے لئے مواد “ملزم جناح حاضر ہو” سے لی گئی
۔
عماد بزدار