ہم کہاں کھڑے ہیں؟ – حافظ صفوان

جوں جوں عمر بڑھی ہے توں توں جن چیزوں کے معاملے میں بالکل واضح سمجھ آنا شروع ہوئی ہے ان میں کا ایک نظامِ تعلیم اور ذریعۂ تعلیم بھی ہے۔ نظامِ تعلیم صرف وہی چلے گا جس کے لیے فنڈنگ ہو رہی ہے اور اس کا نصاب بھی وہیں سے آئے گا خواہ وہ یہاں والے کیوں نہ بنا رہے ہوں، اور ذریعۂ تعلیم بھی وہی زبان ہوگی جسے فنڈنگ دینے والے قبول کرتے ہیں۔ یہاں اس بارے میں جو کچھ کیا اور کرایا جاتا ہے اور جذبات ابھارے اور جذبات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے یہ بھی سب کا سب فنڈڈ اور سکرپٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ تعلیم میں عصری و مذہبی دونوں برابر شامل ہیں۔

یہ سب کچھ کرانے کے لیے پونے دو سو سال سے مقتدرہ کو ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ مقتدرہ ہی نے سر سید و نذیر احمد و شبلی و آزاد سے لکھوایا اور فرقہ وارانہ مدارس بنواکر مختلف مولویوں کو فرقہ واری تعلیم کا ٹھیکہ sublet کیا۔ یہ مقتدرہ ہی ہے جو آج ہر سال ایسے سروں کی فصلیں اٹھاتی ہے جن میں تکفیریت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

حد یہ ہے کہ یہاں کوئی آزاد بحث بھی نہیں ہوسکتی۔ بحث کے موضوعات اور ایجنڈہ پوائنٹس بھی امداد دینے والے طے کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ مایوسی کی بات نہیں کی جا رہی۔ ہم لوگ پس ماندہ ہیں اس لیے بڑی سوچ سوچ بھی نہیں سکتے، اور نہ ہم ایک قوم ہیں جو کوئی قومی سوچ پیدا کرسکے یا رکھ سکے۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ بحیثیتِ ہندوستانی قوم ہمارے آخری ہمدرد انگریز تھے جنھوں نے ہمارے لیے کچھ بنا دیا اور ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے کے لائق بنانے کے لیے تعمیری کام کیے۔ انگریز کے بعد یہاں جو کچھ ہو رہا ہے، سرحد کے دونوں طرف، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انگریز کے جانے کا معاشی نقصان تو جو ہوا سو ہوا، مذہبی نقصان یہ ہوا ہے کہ اب پوری دنیا میں مسلمان کو دیکھ کر اسلام کوئی قبول نہیں کرتا۔ اسلام جیسے فطری اور آسان ترین مذہب کے پھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان بنا ہوا ہے۔ آج کوئی قرآن پڑھ کے اسلام قبول کرے تو کرے، مسلمان سے واسطہ پڑجائے تو دردمند مسلمان بھی اسلام پہ قائم رہنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔