اجتہادی امور میں دور خلافت راشدہ کے فیصلے

خلافت راشدہ کے دور میں مختلف اجتہادی امور میں باہمی مشاورت یا صواب دیدی اختیارات کے تحت مختلف فیصلے ہوتے تھے جنہیں بعد میں کبھی کبھی تبدیل بھی کر دیا جاتا تھا. مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مانعین زکوۃ کے خلاف جنگ کرنے اور ان کے ساتھ مرتدین کا سا برتاؤ کرنے میں تردد تھا. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قطعی رائے کی وجہ سے انہوں نے خلیفہ کا ساتھ دیا لیکن جب وہ خود خلیفہ ہوئے تو ان قبائل کی ایسی خواتین جو باندیاں تھیں لیکن کسی مالک سے صاحب اولاد نہیں ہوئی تھیں آزاد کر دیں اور انہیں واپس ان کے قبائل میں بھیج دیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک خمس کے حصہ داروں میں ذوی القربی سے مراد رسول اللہ کے ذوی القربی رہے جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ذوی القربی سے خلیفہ کے ذوی القربی مراد لئیے کیونکہ آیت میں یہ واضح نہیں ہوتا تھا کہ یہ رسول اللہ کا شخصی استحقاق ہے یا ریاستی منصب کا.

ہمارے لٹریچر میں بعض مسائل میں اجماع صحابہ سے استدلال کیا جاتا ہے اور جہاں کوئی دوسری دلیل نہ ہو وہاں اس کو مضبوط ترین دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جیسے یک بارگی طلاق ثلاثہ کا نفاذ

یہ دلیل کس قدر موثر ہے؟ تحقیق کے طلبہ کو عہد صحابہ کرام کے اجتہادات کو امام شافعی کے اس بیان کی روشنی میں از سر نو دیکھنا چاہئیے. امام لکھتے ہیں

فی ھذا دلالۃ علی انھم یسلمون لحاکمھم وان کان رایھم خلاف رایہ، وان کان حاکمھم قد یحکم بخلاف ارائھم، لا ان جمیع احکامھم من جھۃ الإجماع عنھم…… لا یقال لشئ من ھذا اجماع ولکن ینسب کل شئ الی فاعلہ، فینسب الی ابی بکر فعلہ والی عمر فعلہ والی علی فعلہ، ولا یقال لغیرھم ممن اخذ عنھم :موافق لھم ولا مخالف

یہ مثال اس امر کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام اپنے حاکم کی اطاعت کرتے تھے خواہ ان کی اپنی رائے حاکم کی رائے کے برعکس ہو جبکہ حاکم بارہا ان کی رائے کے برعکس فیصلے کر دیتے تھے. یہ کہنا درست نہیں کہ ان تمام آراء پر صحابہ کا اجماع ہوتا تھا…… ان میں سے کسی بات کو بھی اجماع صحابہ کہنا درست نہیں بلکہ ہر فرد کے عمل کو اس فرد کی طرف منسوب کرنا چاہئیے.. حضرت ابوبکر کے فعل کو ان کی طرف، حضرت عمر کے فعل کو ان کی طرف اور حضرت علی کے فعل کو ان کی طرف. دوسرے اہل علم ان میں سے کسی رائے کو ترجیح دیں تو یہ کہنا درست نہیں کہ فلاں ان کے مخالف ہے یا موافق ہے

امام شافعی نے کتاب الام 10:109-110 میں متعدد مثالوں سے اپنا نقطہ نظر واضح کیا

اگر امام شافعی کی اس رائے کو بنیاد بنا کر عہد خلفاء راشدین بلکہ دور ملوکیت کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور لوگوں کے فکری اور نظریاتی اختلافات بلکہ طرز عمل کے تضادات کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سی مفید معلومات سامنے ا سکتی ہیں

طفیل ہاشمی