السلام علیکم۔ آپ کا پورا بیان سنا۔ پہلی بات آپ نے بہت پیار سے بات سمجھانے کی کوشش کی۔ اس لیے میں بھی پیار سے سمجھانے کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ۔
1۔ اہل سنت (بریلوی اور دیگر علماء جیسے عرب وغیرہ کے) استغاثہ کو وسیلہ کی قسم ہی مانتے ہیں۔ حقیقی حاجت روا مشکل کشا صرف اللہ ہی کو مانتے ہیں۔ جب ڈائریکٹ انبیاء و اولیاء اس استغاثہ کرتے ہیں تو نیت یہ ہوتی ہے کے وہ اللہ سے ہمارے لیے دعا کر دیں۔ یعنی یہ بھی وسیلہ کی ہی قسم ہے۔ تو سب سے پہلے میں وسیلہ پر آپ کا تعقب کروں گا۔ کتب ستہ میں جو سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو وسیلہ والی دعا سکھائی تو یہ دعا مطلق ہے۔ اس میں زندہ و مردہ کی کوئی قید نہیں۔ علماء نے اس سے مطلق نبی کریم کا بعد از وصال وسیلہ پکڑنے پر استدلال کیا ہے۔ علامہ قاضی شوکانی رحمہ اللہ جو اہل حدیث مکتب فکر کے عظیم عالم تھے انہوں نے اس سے بعد از وصال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وسیلہ پکڑنے پر استدلال کیا ہے۔ علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اہل حدیث عالم نے بھی اس سے بعد از وصال وسیلہ پکڑنے پر استدلال کیا ہے۔ اور صحابہ نے بھی اس روایت کو مطلق لیا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری وفات کے بعد انہی سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے نبی کریم سے وسیلہ پکڑنے کے یہی الفاظ سکھائے۔ آپ نے اس بعد از وصال والی روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ سے ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ شیخ البانی کی خطا ہے اور شیخ البانی اہل سنت بریلوی اور دیوبندی مکتب فکر میں حجت نہیں۔ یہ روایت بلکل صحیح ہے اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔ امام ابن یوسف صالحی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
2۔ پھر مالک الدار والی روایت کے ایک شخص (صحابی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آیا اور نبی کریم کو کہا ہمارے لیے بارش کی دعا کریں۔ تو یہ روایت بھی صحیح ہے۔ البانی صاحب نے مالک الدار کو غیر معروف کہہ کر خطا کی جبکہ جید محدثین نے مالک الدار رحمہ اللہ کو معروف و ثقہ کہا ہے۔ یہ روایت بھی صحیح ہے جیسے امام ابن کثیر رحمہ اللہ اور امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا۔ جہاں تک آپ کی بات ہے کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بعد از وصال نبی کریم کا وسیلہ ترک کر دیا تھا تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے۔ کیونکہ بخاری کی روایت کے ہم پہلے نبی کریم کا وسیلہ دیتے تھے اب ہم “آپ کے چچا” کا وسیلہ دیتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کے افضل کی موجودگی میں مفضول کا وسیلہ جائز ہے۔ اس کی تائید اس صحیحین کی روایت سے ہوتی ہے کے نبی کریم نے اپنی موجودگی اور اکابر صحابہ کی موجوگی میں کہا کے اویس قرنی رحمہ اللہ سے کہو میری امت کے لیے دعا کرے۔ جبکہ نبی کریم خود موجود تھے اور اکابر صحابہ جیسے سیدنا ابو بکر، عمر، عثمان و علی بھی موجود تھے۔ اہل حدیث (وہابیہ) کے علاوہ کسی نے اس روایت سے یہ استدلال نہیں کیا کے اس سے نبی کریم کا وسیلہ منسوخ ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ قاضی شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس سے انبیاء کے علاوہ صالحین کا وسیلہ پکڑنے کے جواز کا استدلال کیا ہے۔ اگر آپ یہ باتیں نہیں بھی مانتے تو بخاری کی اس روایت میں ایک راوی عبد اللہ بن المثنی پر شدید جرح بلکہ مفسر جرح موجود ہے اور اس کی صحیح متابعت بھی موجود نہیں تو یہ روایت ضعیف ہے۔ آپ کہیں گے کے ہم اہل سنت بخاری کی موقوف حدیث کو ضعیف کہہ رہے ہیں۔ تو جناب آپ کے شیخ البانی رحمہ اللہ نے 30 سے زاید صحیحین کی روایات کو ضعیف کہا ہے۔
3۔ اب آتے ہیں اپکی بدعت پر مبنی اصطلاح ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب کی طرف۔ تو جناب آپ نے قرآن کی وہ آیت استعمال کیوں نہیں کی جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں ولی عاصف بن برخیا نے ما فوق الاسباب ملکہ بلقیس کا تخت انکھ جھپٹنے سے پہلے پیش کر دیا۔ اور آپ نے وہ صحیح اثر پیش نہیں کیا کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ساریہ رضی اللہ عنہ کی مافوق الاسباب مدد کی۔ سیدنا عمر مدینہ میں موجود تھے اور انہوں نے پکارا یا ساریہ الجبل۔ اور یہ آواز سیدنا ساریہ نے ہزاروں میل دور بھی سنی۔ اس روایت سے امام شمس الدین الرملی رحمہ اللہ نے انبیاء و اولیاء سے استمداد کرنے پر حجت پکڑی ہے۔
4۔ آپ نے کہا کے پیر نصیر الدین نصیر اور پیر مہر علی شاہ بریلوی تھے۔ جبکہ یہ بات درست نہی۔ پیر نصیر الدین نصیر صاحب نے اگر استغاثہ کو شرک کہا تو ایسے وہ کچھ روافض جیسے عقائد بھی رکھتے تھے اور تفضیل سیدنا علی کے قائل تھے جبکہ اعلی حضرت امام احمد رضا رحمہ اللہ نے تفضیلیوں کو اہل سنت سے خارج کہا ہے۔
5۔ آپ نے کہا کے اہل سنت کے 2 مکاتب یعنی اہل حدیث اور دیوبند استغاثہ کو شرک کہتے ہیں تو آپ کے بقول جمہور اس طرف ہیں۔ آپ نے اجکل کے دیوبندی ویب سائٹس کے حوالے دیے۔ جبکہ دیوبندی اکابرین جیسے قاسم نانوتوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مختار کل اور مالک مانتے تھے۔ ایسے ہی اشرف علی تھانوی صاحب نے نبی کریم سے استغاثہ کیا ہے۔ دیوبندی اکابرین کی کتب سے بھی استغاثہ ثابت ہے۔ جہاں تک مماتی دیوبندی کی بات ہے تو وہ حیاتی دیوبندیوں کے نزدیک دیوبندی نہیں اور شدید گمراہ ہیں۔ حیاتی دیوبندی دیوبندیت میں جمہور ہے۔
6۔ آپ نے قرآن کی آیات کو غلط استعمال کرتے ہوئے کہا کے مشرکین مکہ بھی ایسا ہی عقیدہ رکھتے تھے کے ان کے بت حقیقی مددگار نہیں بلکہ وہ صرف وسیلہ ہیں۔ پھر آپ نے آخر میں کہا کے استغاثہ شرک ہے لیکن وسیلہ شرک نہیں بلکہ بدعت ہے۔ تو جناب یہ آپ کی بات میں تضاد ثابت ہوا۔ ایسے تو وسیلہ بھی شرک ہونا چاہیے کیونکہ مشرکین مکہ بتوں کو وسیلہ مانتے تھے. کیا وجہ ہے کے اہل سنت کے تمام چاروں مذاھب یعنی حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی سب وسیلہ کے قائل ہیں۔ البانی صاحب نے بھی مانا کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بعد از وفات نبی ان کے وسیلہ کے قائل تھے۔ تو کیا آپ کے نزدیک امام احمد بن حنبل اور چاروں مذاھب بدعتی ہیں؟
7۔ آپ نے کہا کے قوم نوح کے زمانے میں جو 5 بتوں کا ذکر ہے تو وہ اولیاء تھے۔ اور آپ نے بخاری شریف کی حدیث کو %100 صحیح کہا کے وہ بت نیک لوگوں کے تھے جن کی عبادت شروع ہوئی اور مشرکین مکہ بھی ان کی عبادت کرتے تھے۔ تو یہ لیں جواب۔ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں عطا خراسانی سیدنا ابن عباس سے نقل کر رہے ہیں۔ عطا خراسانی کا سیدنا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں۔ کثیر شارحین بخاری اور علماء نے اس روایت کو منقطع کہا ہے۔ جہاں تک لات و عزی کی بات ہے تو آپ نے کہا کے وہ حاجیوں کو ستو پیلاتا تھا اور نیک بندہ تھا۔ پہلی بات آپ نے اس پر کوئی مرفوع روایت پیش نہیں کی۔ اور ویسے بھی مشرکین مکہ ننگا کعبہ کا طواف کرتے تھے اور لات کے بارے ثابت نہیں کے وہ مواحد لوگوں کو ستو پیلاتا تھا۔ تو یہ کہنا کے وہ نیک شخص یا ولی تھا بلکل ثابت نہیں۔
8۔ آپ نے مولانا خان محمد قادری کے بارے کہا کے وہ بھی استغاثہ کو شرک کہتے ہیں۔ لیکن جو کلپ آپ نے لگایا اس میں وہ انبیاء و اولیاء سے دعا کرنے کو شرک کہہ رہے ہیں۔ تو جان لیجیے کے ہم اہل سنت عبادت والی دعا نہیں کرتے بلکہ ندا کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں لفظ دعا مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ دعا کا لفظ قرآن میں صحابہ کا نبی کریم کو پکارنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ تو تاویل یہ کی جائے گی کے انبیاء و اولیاء کو جب پکارا جاتا ہے تو وہ ندا ہوتی ہے دعا عبادت نہیں۔
9۔ کثیر علماء جیسے اصلی شیخ الاسلام امام سبکی رحمہ اللہ، امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ، امام شمس الدین رملی شافعی صغیر رحمہ اللہ، شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اور کافی علماء استغاثہ کے قائل تھے۔ کیا ان سب کو آپ مشرک کہیں گے؟
10۔ پھر آپ نے وہ روایات کے ایے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔ ان کو ضعیف کہا اور شیخ البانی کی تحکیم پر بھروسہ کیا۔ جبکہ امام نور الدین الہیثمی رحمہ اللہ نے ان روایت کے ایک طرق کو صحیح کہا ہے۔ امام طبرانی نے انہیں مجرب کہا (یعنی اس پر عمل ہے تو ظاہر سی بات ہے یہ صحیح ہیں)۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس پر عمل کیا۔ جہاں تک بات ہے کے یہ روایات صرف فرشتوں اور جنوں کے لیے خاص ہیں تو یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس روایات کی شرح میں کہا کے اس سے مراد فرستے، جن، ابدال، اور رجال غیب ہیں۔ اگر بلفرض فرشتوں اور جنوں پر بھی خاص کیا جائے تو غیر اللہ سے مدد مانگنا تو ثابت ہو گیا۔
مزید بھی لکھ سکتا تھا لیکن ان شاء اللہ اتنا کافی ہے۔ اللہ ہم سب کو دوسرے مسلمانوں کو مشرک کہنے سے بچائے۔ احادیث کے مطابق شرک کا الزام لگانے والا خود مشرک ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔
والسلام۔
—–‐————-
دوسری تحریر
میں نے آپ کو پچھلی تحریر بھیجی تو آپ نے وٹس ایپ پر کہا کے دوسری قسط میں آپ نے ان سب سوالوں کے جواب دیے ہیں۔ میں نے آپ کی دوسری قسط سنی تو مجھے صرف 2 یا 3 باتوں کا جواب ملا وہ بھی غیر معقول تھا۔
1۔ آپ کو دیگر حضرات نے سوال کیے اس میں سے پہلے سوال کے جواب میں آپ نے کہا کے شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پہلا شخص نہیں تھا جس نے وسیلہ کا انکار کیا بلکہ ان سے پہلے بھی حنفی علماء جیسے صاحب ہدایہ نے کہا ہے کے “بحق انبیاء” وغیرہ کہنا مکروہ ہے۔
آپ حنفی فقہ کا موقف ہم احناف سے ہی سمجھیں گے نا خود سے straw man argument بنا لیں۔ پہلی بات ہدایہ اور دوسری کتب جن کا آپ نے حوالہ دیا اس میں “بحق” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی اللہ تعالی پر انبیاء و اولیاء کا وسیلہ واجب (حق) ہونا۔ انہی عبارات میں آگے لکھا ہے کے اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ اس سے وسیلہ کی نفی نہیں ہو رہی بلکہ اللہ پر اس کے واجب ہونے کی نفی ہو رہی ہے۔ اب آتے ہیں احناف کے موقف کی طرف۔ آپ مان چکے ہیں کے حنفی بریلوی اور اصلی دیوبندی یعنی حیاتی حنفی دیوبندی دونوں وسیلہ کے قائل ہیں۔ تو جناب حنفی فقہ کو ہم احناف ہی بہتر جانتے ہیں۔
حنفی فقہ کی عظیم کتاب رد المحتار یعنی فتاوی شامی میں امام ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے امام سبکی کا قول بالجزم نقل کیا کے وسیلہ کا سب سے پہلے انکار ابن تیمیہ نے کیا اور یہ اس کی بدعت تھی۔
2۔ پھر آپ نے خود تسلیم کیا کے ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب کی اصطلاح قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ یعنی آپ مان گئے کے یہ اصطلاح بدعت ہے۔
3۔ پھر آپ نے کہا شرک ہوتا ہے اللہ کی ذات، افعال اور صفات میں کسی کو شریک کرنا۔ تو جناب اللہ کی ذات واجب الوجود ہے اور کوئی سنی بریلوی انبیاء و اولیاء کو واجب الوجود نہیں مانتا تو ذات کا شرک ہو ہی نہیں سکتا۔ جہاں تک افعال و صفات میں شرک کی بات ہے تو وہ میں آگے بیان کروں گا کے کیسے انبیاء و اولیاء کا افعال کرنا اور عطائی صفات رکھنا شرک نہیں۔
4۔ آپ نے سورہ احقاف کی آیت 5 استعمال کی کے جن کو مشرکین پکارتے ہیں وہ قیامت تک جواب نہیں دے سکتے اور نا ہی واقف ہو سکتے ہیں۔ اس آیت کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھیں تو معلوم ہو گا کے یہ انبیاء و اولیاء کے بارے نہیں بلکہ مشرکین مکہ کے بتوں کے بارے ہے۔ تفسیر ابن کثیر دیکھیں تو معلوم ہو گا کے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا یہ آیت بتوں کے بارے ہے جو “بے جان ہیں، نا سن سکتے ہیں نا جواب دے سکتے ہیں۔” آپ نے کہا کے یہ بتوں کے بارے کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن میں ذکر ہے کے مشرکین کے معبود قیامت کے دن ان کے شرک کا انکار کریں گے تو ظاہر سی بات ہے وہ نیک لوگ ہوں گے۔ تو آیے اس کو قرآن کی دوسری آیت سے سمجھتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے: ( حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے قفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لانت کرنے لگو گے اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا ۔ (العنکبوت،آیت 25)
ثابت ہوا کے بت بھی قیامت کے دن مشرکین کے قفر کا انکار کریں گے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں جو بت تھے وہ ثابت نہیں کے کسی نیک انسان کے بنے ہوں۔ میں پچھلی تحریر میں ثابت کر چکا ہوں کے نوح علیہ السلام کے زمانے کے 5 بت نیک بندوں کے نہیں تھے۔ بخاری کی حدیث عطا خراسانی کی وجہ سے منقطع ہے کیونکہ عطا خراسانی کا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
اور احادیث سے ثابت ہے کے انبیاء، اولیاء و وفات شدہ سنتے بھی ہیں، جواب بھی دیتے ہیں اور ہم سے واقف بھی ہوتے ہیں۔ علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ جو مکتب اہل حدیث کے عظیم عالم سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کمال کتاب کتاب الروح میں ثابت کیا کے مسلمان (انبیاء و اولیاء بطریق اولی) قبر میں سنتے ہیں، جواب دیتے ہیں اور ہم سے واقف ہوتے ہیں۔ ثابت ہوا کے آپ قرآن و حدیث میں تضاد ثابت کر رہے ہیں آیات کو غلط استعمال کر کے۔
5۔ آپ نے کہا قرآن موت کے بعد برزخ کا ذکر کرتا ہے اور فوت ہونے کے بعد دنیا سے تعلق نہیں رہتا۔ تو جناب جواب سنیے کے احادیث کے مطابق خاص طور پر انبیاء کا تعلق دنیا سے قائم رہتا ہے۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کے انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ ہمارا سلام اور کلام سنتے ہیں اور ہماری سفارش کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں پچھلی تحریر میں ثابت کر چکا ہوں سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی روایت مطلق ہے اور صحابہ کا بعد از وصال بھی اس پر عمل تھا۔ یعنی نبی کریم کو پکار کر ان کا وسیلہ پکڑنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ اور دوسری مالک الدار رحمہ اللہ والی روایت کو بھی صحیح ثابت کر چکا ہوں۔
6۔ آپ نے وہ حدیث استعمال کی کے جو اللہ چاہے اور جو رسول چاہے یہ کہنا شرک ہے۔ تو جناب اس کو کہتے ہیں تمام احادیث کا مطالعہ کیے بغیر فیصلہ کرنا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص قسم کھائے تو ما شاء الله وشئت جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں نہ کہے، بلکہ یوں کہے: ما شاء الله ثم شئت جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں
ابن ماجہ # 2117۔ حدیث صحیح ہے۔
جہینہ قبیلے کی ایک عورت حضرت قتیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : تم بھی شرک کرتے ہو اور غیراللہ کو معبود بناتے ہو کیونکہ تم کہتے ہو : جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں ۔ اور تم کعبہ کی قسم کھاتے ہو ۔ تو نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب وہ قسم کھانے لگیں تو کہیں : رب کعبہ کی قسم ! اور کہیں جو اللہ تعالیٰ چاہے‘ پھر آپ چاہیں ۔
سنن نسائی # 3804۔ حدیث صحیح ہے۔
7۔ آپ نے ذات انواط والی حدیث استعمال کی کے نبی کریم نے کہا تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے۔ جناب پہلی بات درخت اور انبیاء و اولیاء کی قبور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبور کی زیارت کرنے کا حکم دیا۔ انبیاء و اولیاء کی قبور بنتی ہیں۔ جبکہ بت پتھر یا درخت وغیرہ کی زیارت کرنا یا ان سے کلام کرنا شریعت میں ثابت نہیں۔ دوسری بات ہمیں اس حدیث کی تاویل کرنا پڑے گی وگرنہ روافض کا موقف درست ہو جائے گا کے صحابہ نبی کریم کے بعد مرتد و بدعتی ہو گئے۔ ایسی احادیث سے مراد صحابہ یا بریلوی حضرات نہیں بلکہ قیامت سے پہلے کچھ لوگ بتوں کی عبادت شروع کر دیں گے وہ ہیں۔
8۔ آپ نے کہا کسی زندہ سے کہنا کے مجھے بیٹا دے دو یہ بھی شرک ہو گا۔ جناب پہلی بات یہ صرف تب شرک ہو گا اگر اس کو نبی یا ولی کی ذاتی قدرت مانا جائے۔ میں قرآن سے سمجھاتا ہوں۔
یہ ہمارا عقیدہ ہے کے مردہ کو زندہ صرف اللہ کرتا ہے لیکن قرآن میں ذکر ہے کے عیسی علیہ السلام باذن الہی مردہ کو زندہ کرتے تھے۔ ہمارا عقیدہ ہے کے پرندوں کو تخلیق کر کے ان میں روح پھونکنا اللہ کی صفت ہے لیکن عیسی علیہ السلام نے بھی یہ باذن الہی کیا۔ ہمارا عقیدہ ہے کے شفا صرف اللہ دیتا ہے لیکن عیسی علیہ السلام نے باذن الہی نابینا اور کوڑ کی بیماری والوں کو شفا دی۔ اب آپ کہیں گے کے یہ معجزہ ہے۔ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کے شرک شرک ہوتا ہے چاہے معجزہ میں ہو یا نا ہو۔ ایسے ہی اگر ہم انبیاء و اولیاء کو اس نیت سے پکارتے ہیں کے باذن الہی وہ ہماری مدد کریں تو یہ بلکل درست ہے جیسے عیسی علیہ السلام نے باذن الہی یہ سب افعال کیے۔
9۔ پھر آپ نے سورہ اسراء کی آیت استعمال کی کے مشرکین مکہ جنات کو پکارتے تھے اور یہ شرک ہے۔ آپ نے کہا فرشتوں کو بھی نہیں پکارا جا سکتا۔ دوبارہ آپ نے اس روایت کے ائے اللہ کے بندو میری مدد کر کو ضعیف کہا جبکہ میں پچھلی تحریر میں اس روایت کو صحیح اور مجرب ثابت کر چکا ہوں۔
10۔ آپ نے کہا کے 2:89 میں وسیلہ کا لفظ نہیں اور اعلی حضرت نے اپنی طرف سے ڈال دیے۔ جناب یاد رکھیں کے کنز الایمان تفسیری ترجمہ ہے۔ کثیر تفاسیر یہاں تک آپ کے ممدوح ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آیت کے بارے یہی کہا ہے کے یہود پہلے نبی کریم کا وسیلہ دیتے تھے تو ان کو فتح ملتی۔ پھر آپ نے کہا کے 5:35 میں جو وسیلہ کا ذکر ہے وہ صرف اللہ کی صفات کا وسیلہ، نیک اعمال کا وسیلہ اور زندہ کا وسیلہ ہے۔ جناب یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ یہ آیت تمام طرح کے جائز وسیلہ کے جواز پر ہے اور اس میں فوت شدہ کا وسیلہ پکڑنا بھی ثابت ہے جیسے احادیث سے ثابت ہے۔ اور جب آپ اعمال کے وسیلہ کو بدعت و شرک نہیں مانتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاء کا وسیلہ کیسے بدعت و شرک ہو گیا؟ اعمال بھی تو مخلوق ہی ہیں جناب۔
11۔ اور آپ نے سورہ نمل کی آیت کے بارے کہا کے اس بڑے جن میں طاقت تھی کے وہ سلیمان علیہ السلام کا تخت ان کی محفل برخاست ہونے سے پہلے لا سکتا تھا۔ آپ نے کہا کے جن کی یہ طاقت ہے لیکن انسان کی نہیں۔ جناب پہلی بات انسان اور وہ بھی انبیاء و اولیاء جنات سے افضل ہیں اور اللہ نے انبیاء و اولیاء کو طاقت دی ہے کے وہ ما فوق الاسباب کوئی کام کر سکیں۔
آپ نے کہا کے عاصف بن برخیا جو انکھ جھپٹنے سے پہلے تخت بلقیس لے آئے تو وہ اس لیے کے اس کے پاس علم کتاب تھا تو یہ کتاب کا علم زریہ بنا۔ واہ جی واہ وہ شخص جس کے پاس بعض کتاب کا علم تھا اس کو اللہ نے اتنی قدرت دی تو سوچیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے افضل کتاب قرآن کے مکمل عارف ہیں تو ان کے پاس کتنی قدرت ہو گی؟ ایسے ہی اولیاء جو قرآن و شریعت کے پراپر عارف ہیں ان کے پاس بھی قدرت ہو سکتی ہے۔ جناب قرآن ہمیں عقل استعمال کرنے کو کہتا ہے تو سورہ نمل کی اس آیت سے ثابت ہوا کے انبیاء و اولیاء مافوق الاسباب باذن الہی مدد کر سکتے ہیں۔
آپ نے کہا زندہ کا وسیلہ جائز ہے۔ تو جناب میں پچھلی تحریر میں جواب دے چکا ہوں کے نبی کریم نے مطلق ان کا وسیلہ پکڑنے کی تعلیم دی اور صحابہ نے بعد از ظاہری وفات بھی نبی کریم کا وسیلہ پکڑا۔ خیر ویسے بھی اہل سنت انبیاء کو قبروں میں حیات مانتے ہیں اور قرآن و حدیث سے سماع الموتی بھی ثابت ہے بلکہ احادیث میں آتا ہے کے مردہ ہم سے بہتر سنتا ہے۔ احادیث میں یہ بھی آتا ہے کے مردہ جواب بھی دیتا ہے خاص طور پر نبی کریم کے بارے ایسی بہت روایات ہیں۔ تو آپ انبیاء و اولیاء کی قبور کو بتوں سے کمپیر نہیں کر سکتے۔ بت سنتے نہیں جبکہ انبیاء و اولیاء سنتے ہیں۔ بت جواب نہیں دے سکتے جبکہ انبیاء و اولیاء جواب دے سکتے ہیں۔ بت سفارش نہیں کر سکتے جبکہ انبیاء و اولیاء کر سکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
12۔ پھر آپ نے قرآن کی آیت استعمال کی کے مشرکین کہتے ہیں کے فرشتے اللہ کی اولاد ہیں اور وہ شفاعت اللہ کے اذن سے کریں گے لیکن خود نہیں کر سکتے۔ پہلی بات کوئی مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا اولیاء کو اللہ کے بیٹے نہیں مانتا۔ دوسری بات آپ نے کہا کے شفاعت پر آپ علیحدہ سے ویڈیو بنائیں گے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اہل سنت کا قطعی عقیدہ ہے۔ نبی کریم زندگی میں بھی شفاعت کرتے تھے، ظاہری وفات کے بعد بھی کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے۔
آپ نے پھر بات کی کے مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور جنوں کو بھی ایسے ہی مان کر استغاثہ کرتے تھے۔ تو جناب کوئی مسلمان فرشتوں اور جنوں کو اللہ کی اولاد نہیں مانتا۔ دوسری بات پچھلی تحریر میں میں جواب دے چکا ہوں کے وہ روایت صحیح ہے کے ایے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔ اسے میں صحیح ثابت کر چکا ہوں اور اس روایت پر ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا کے اس سے مراد فرشتے، جن، ابدال اور رجال غیب ہیں۔
آپ نے کہا جو موجود نہیں اس سے استغاثہ کرنا شرک ہے۔ آپ نے کہا کے جنات اور فرشتوں سے بھی استغاثہ شرک ہے۔ یہ آپ کی تضاد بیانی ہے۔ جنات اور فرشتے حاضر ہوتے ہیں تو ان سے استغاثہ کیسے شرک ہوا؟ اور ایسے ہی انبیاء کو قبر میں حیات ہے۔ تو آپ یہ تو مان جائیں کے ان کی قبور پر ان سے استغاثہ جائز ہے کیونکہ وہ زندہ ہوتے ہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نبی کریم کی قبر پر حاضر ہوتے تھے تو یا رسول اللہ کہتے تھے۔ اور دور سے بھی یا محمداہ کہتے تھے۔ اس روایت کے بارے ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا کے اس سے مراد استغاثہ ہے۔
پھر آپ نے انبیاء و اولیاء کو سورج اور ہواوں پر قیاس کیا کے یہ کہنا ایے ہوا اللہ کو کہو کے بارش برس جائے۔ یا سورج کو کہو کے اللہ کو کہو روشنی کر دے تو یہ جائز نہیں۔ پہلی بات آپ اشرف المخلوقات کو سورج و ہوا پر قیاس کر رہے ہیں۔ انبیاء و اولیاء کے بارے تو صحیح روایات ہیں کے وہ بعد از وفات بھی سنتے ہیں۔ اہل سنت سماع الموتی کے قائل ہیں یہاں تک کے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح لکھی جس کا پہلا باب ہی یہ ہے کے مردے سنتے ہیں۔
پھر آپ نے کہا کے مشرکین اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے وہ سب ایک ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ آپ نے کہا اس سے مراد انبیاء و اولیاء ہیں۔ تو جناب قرآن میں جو ذکر ہے کے تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے (الانبیاء، آیت 98) اب کیا عیسی علیہ السلام جن کی عبادت ہوتی ہے کیا وہ بھی معاذ اللہ جہنم کا ایندھن ہوں گے؟
آپ نے کہا کے لعل شہباز قلندر کے اب Statue بنا لیے گئے ہیں اور ان کی قبر یا Statue کا طواف ہوتا ہے۔ اور پھر بھی اہل سنت بریلوی کہتے ہیں کے شرک نہیں ہو رہا۔ تو جناب جواب سنیے۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جم غفیر شرک میں مبتلا نہیں ہو گی۔ہاں کچھ لوگ ضرور شرک میں مبتلا ہوں گے۔ جبکہ اہل حدیث (وہابیہ) تو جمہور مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں جبکہ جمہور کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتے۔ یہ وہابیوں کا شرک کا فتوی واپس ان پر لوٹ رہا ہے اور حدیث کے مطابق وہابی خود مشرک بن جاتے ہیں۔
13۔ پھر آپ نے سیر اعلام النبلاء کی حکایت کے سمرقند میں جب قحط پڑا تو لوگ امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر گئے اور ان کے وسیلہ سے دعا کی۔ آپ نے اس کے بارے کہا یہ بات سند میں جائے بغیر اگر صحیح بھی مان لی جائے تو یہ درست نہیں۔ جناب پہلی بات ایسی بات صرف امام بخاری کے بارے نہیں بلکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الثقات میں لکھا ہے کے وہ امام علی بن موسی الرضا رحمہ اللہ کی قبر پر جاتے تھے اور اللہ سے دعا کرتے تھے تو ہمیشہ ان کی حاجت پوری ہو جاتی تھی۔ اب آپ کہیں گے کے وہ مانگتے تو اللہ ہی سے تھے۔ تو اس کا جواب ہے کے وسیلہ تو ثابت ہوا نا۔ ایسے تو وہ کہتے میں گھر میں ہی بیٹھ کر جب بھی مانگتا تھا تو میری حاجت پوری ہو جاتی تھی لیکن قبر کا ذکر کیوں کیا؟ اس کا جواب امام ذھبی رحمہ اللہ نے دیا کے قبور صالحین پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اب جناب آپ مجھے بتائیں کیا مشرکین کے بتوں یا ہندوں کے بتوں کے پاس جا کر دعا کرنا بھی جائز ہے؟ آپ کے بقول تو مشرکین مکہ اور جمہور مسلمان دونوں مشرک ہیں تو پھر علماء نے قبور صالحین کی قبور کے پاس دعا کو کیوں مجرب کہا ہے؟ کیا امام ذھبی رحمہ اللہ جو شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد تھے وہ بھی قبوری تھے؟
پھر آپ نے کہا کے ان محدثین کا عمل حجت نہیں بلکہ حجت صرف قرآن و حدیث ہے۔ تو جناب آپ کے مکتب فکر کے عالم غلام مصطفی ظہیر کہتے ہیں کے بیشک 1000 قرآن کی آیات ہوں لیکن سلف کا موقف مختلف ہو تو ہم سلف کے عمل پر چلیں گے۔ تو جناب آپ مان لیں کے سلف الصالحین جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وسیلہ کے قائل تھے اور اس حدیث پر بھی عمل کرتے تھے کے ایے اللہ کے بندہ میری مدد کرو۔
14۔ پھر آپ نے کہا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت یا اتباع کا وسیلہ دینا جائز ہے لیکن ذات کا وسیلہ دینا جائز نہیں۔ جناب یہ آپ پھر وہی بات کر رہے ہیں کے اعمال کا وسیلہ جائز ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کے اعمال بھی اللہ کی مخلوق ہی ہیں۔ نبی کریم اور اولیاء سے اتنا بغض کیوں کے اعمال جو مخلوق ہیں ان کا وسیلہ جائز لیکن سب سے عظیم مخلوق نبی کریم کی ذات کا وسیلہ جائز نہیں؟
15۔ پھر آپ نے کہا کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وسیلہ کے قائل تھے لیکن باقی 3 امام قائل نہیں تھے۔ یہ آپ کی افترا ہے کے باقی 3 امام قائل نہیں تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا قول بھی ملتا ہے کے انہوں نے کہا کے نبی کریم کی قبر کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو اور ان کا وسیلہ دو۔ اس کو امام قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الشفا میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ بھی وسیلہ کے قائل تھے کیونکہ شافعی علماء جیسے امام نووی رحمہ اللہ، امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ نے توسل کو تسلیم کیا۔
آپ نے کہا کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ صرف محبت یا اتباع کا وسیلہ دینے کے قائل تھے۔ یہ آپ کی افترا ہے۔ علامہ البانی صاحب نے اپنی کتاب التوسل میں امام احمد کو وسیلہ کا قائل کہا ہے لیکن بعد میں کہا کے میں خود یعنی البانی اس کا قائل نہیں۔ ثابت ہوا کے امام احمد ذات کا وسیلہ دینے کے قائل تھے وگرنہ البانی صاحب امام احمد پر نکیر نا کرتے کیونکہ آپ نے کہا کے محبت و اتباع کا وسیلہ دینے پر کسی کا اختلاف نہیں۔
16۔ پھر آپ نے وہی بات کی کے توسل بعد از وفات شرک نہیں لیکن بدعت ہے۔ تو جناب اعلی آپ خود کہہ چکے ہیں کے مشرکین مکہ بھی بتوں کا وسیلہ ہی دیتے تھے۔ یعنی آپ کنفیوز ہیں۔ اگر مشرکین مکہ کا بھی عقیدہ وسیلہ والا ہی تھا تو انبیاء و اولیاء کے وسیلہ کو بھی آپ شرک کہیں۔ خیر پچھلی تحریر میں میں نے آپ کا اس بات پر تعقب کیا ہے۔
17۔ پھر آپ نے کہا کے ہم اذان کے بعد نبی کریم کو وسیلہ عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ تو آپ نے کہا یہ قیامت کے دن آپ کی شفاعت کے بارے ہے۔ آپ نے مسلم شریف کی روایت استعمال کی کے جس نے اذان کے بعد یہ دعا کی تو “اس پر میری شفاعت واجب” ہو جائے گی۔ جناب یہ روایت خود ثابت کر رہی ہے کے دنیا میں ایسا کرنے سے شفاعت واجب ہو جائے گی۔ اور یہ شفاعت کبری کی بات ہے جو نبی کریم روز مہشر کریں گے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کے دنیا میں نبی کریم شفاعت نہیں کر سکتے۔ اور دوسری بات کیا روز مہشر مشرکین مکہ کے بت بھی شفاعت کریں گے؟ یقینا نہیں تو ثابت ہوا کے آپ کا قافروں کے بارے نازل شدہ آیات کو انبیاء و اولیاء پر تسپا کرنا خود خوارج کا طریقہ ہے جیسے بخاری شریف میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کے خوارج بدترین مخلوق ہیں کیونکہ وہ قفار کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر تسپا کرتے ہیں۔
18۔ پھر آپ نے کہا کے سوال ہوا کے آپ ایک طرف تو استغاثہ کو شرک اور وسیلہ کو بدعت کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف امام احمد رضا رحمہ اللہ کو رحمہ اللہ بھی کہہ رہے ہیں۔ آپ نے اس کا جواب دیا کے آپ انہیں مسلمان مانتے ہیں اور شاید میری دعا سے ان کی مغفرت ہو جائے۔ جبکہ آپ پہلے آیت استعمال کر چکے ہیں کے اللہ شرک کے علاوہ سب کچھ چاہے تو بخش دے۔
اور آپ نے کہا کے بریلوی اور سنی حضرات جو استغاثہ کے قائل ہیں تو ان کو ہم قافر نہیں کہتے لیکن مشرک ضرور کہتے ہیں۔ جناب یہ کیسی منطق ہے؟ مشرک تو پکا قافر ہوتا ہے جناب۔ اسی لیے ہم اہل سنت وہابیہ کو تقفیری فرقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ جمہور مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں۔
19۔ آخری سوال کے آپ کی سوچ خوارج والی ہے۔ اس کے جواب میں آپ نے کہا کے اصل میں امام احمد رضا رحمہ اللہ خارجی تھے کیونکہ انہوں نے تمام وہابیہ و دیوبندیہ اور غالی شیعہ کی تقفیر کی ہے۔ جناب پہلی بات خوارج وہابی ہیں اور وہابی سوچ کی وجہ سے ہی داعش، بوکو حرام، جند اللہ، تحریک تالبان پاکستان جیسے گروہ نکلے۔ ایک مثال دیتا ہوں کے یہ وہابی گروہ مسلمانوں کو قتل تو کرتے ہی ہیں لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا کے داعش نے ایک پوسٹر پر سے اللہ اور محمد کے نام پھاڑ دیے کیونکہ اللہ کے نام کے ساتھ محمد لکھنا معاذ اللہ شرک ہے۔ داعش نے یہ بات وہابیوں کے جید عالم ابن عثیمین کی کتاب جس کا اردو میں ترجمہ فتاوی ارکان اسلام سے ہوا ہے، سے لی ہے۔ ابن عثیمین نے کہا کے جہاں کہیں بھی اللہ کے نام کے ساتھ محمد لکھا پاو تو اسے مٹا دو۔ معاذ اللہ
20۔ جہاں تک اعلی حضرت رحمہ اللہ نے جو تقفیر کی تو وہ 4 دیوبندی اکابرین کی گستاخی پر مبنی عقائد کی وجہ سے کی۔ غیر مقلد عالم زبیر علی زئی صاحب نے بھی دیوبندی اکابرین کی عبارات کو قفریہ کہا ہے۔ ویسے اسماعیل دہلوی کی کتب میں بھی گستاخی پر مبنی الفاظ ہیں لیکن اعلی حضرت نے اسماعیل دہلوی کی تقفیر نہیں کی کیونکہ شاید اس نے توبہ کر لی تھی۔جہاں تک مطلق تقفیر کی بات ہے تو اعلی حضرت نے اپنے وقت کے لحاظ سے ان تمام دیوبندیوں اور وہابیوں پر تقفیر کی جو دیوبندی اکابرین کی قفریہ عبارات کا دفاع کرتے تھے اور اسماعیل دہلوی وہابی کی قفریہ عبارات
کو صحیح مانتے تھے۔
ایسے تو وہابی سعودی حکومت نے بھی دیوبندی تبلیغی جماعت پر پابندی لگا دی ہے کے ان کے نظریات قفریہ و شرکیہ ہیں۔
جہاں تک بات ہے اجکل کچھ متشدد بریلوی حضرات کی کے وہ گستاخی کا فتوی لگا کر عیسائی، یا مسلم کو قتل کر دیتے ہیں تو ہم اہل سنت اس کے سخت خلاف ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور دیگر دوسرے علماء نے اس کو بلکل غلط کہا ہے۔
عامر ابراہیم