مسلمانوں پر شرک کا الزام

آج میری اور ایک فاضل دوست کی ڈاکٹر محمد زبیر اہل حدیث عالم سے ملاقات ہوئی۔ بہت محبت اور پیار سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کے ڈاکٹر یاسر قاضی امریکہ کے مشہور سلفی عالم استغاثہ (انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنے) کو شرک نہیں کہتے بلکہ حرام کہتے ہیں تو آپ بھی مسلمانوں پر شرک کا الزام نا لگایا کریں۔ انہوں نے میری یہ بات تسلیم نہیں کی۔ خیر اگلی گفتگو پوائنٹ کے ساتھ لکھتا ہوں۔

1۔ میں نے ان سے سب سے پہلے شرک کی تعریف پوچھی۔ تو وہ کہتے ہیں اللہ کی ذات، افعال، اور صفات میں کسی غیر کو شریک کرنا۔ میں نے پوچھا آپ نے ویڈیوز میں مشرکین مکہ کو اہل سنت بریلوی اور دیگر سنی جو استغاثہ و وسیلہ کے قائل ہیں ان سے ملایا۔ جبکہ مشرکین مکہ تو سورہ نجم آیات 22-19 کے مطابق لات، عزی، منات کو اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے۔ اور قرآن کی دوسری آیات کے مطابق وہ فرشتوں اور جنوں کو بھی اللہ کی بیٹیاں مانتے تھے۔ تو اہل سنت بریلوی اور دگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ یا اولیاء کو اللہ کی اولاد نہیں مانتے تو مشرکین مکہ اور ہم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس پر وہ دنگ رہ گئے اور کہا مشرکین مکہ بھی مجازی طور پر اپنے خداوں کو اللہ کی اولاد مانتے تھے۔ میں نے کہا قرآن میں کدھر لکھا ہے کے وہ مجازی طور پر مانتے تھے؟ اور اگر مجازی طور پر بھی مانتے ہوں تو تب بھی یہ شرک ہے اور ہم اہل سنت انبیاء و اولیاء کو مجازی طور پر بھی اللہ کی اولاد نہیں مانتے۔

2۔ پھر افعال اور صفات پر گفتگو ہوئی۔ میں نے ان کو کہا کے میں اپنی تحریروں میں آپ کو جواب دے چکا ہوں۔ میری تحریریں ادھر پڑھیں۔

خیر مزید جب میں نے اور میرے فاضل دوست نے ڈاکٹر زبیر صاحب کو سیدنا عمر کا کا مافوقف الاسباب سیدنا ساریہ کی مدد کرنے والی روایت دی تو ڈاکٹر زبیر صاحب کہہ بیٹھے کے یہ روایت موضوع ہے۔ ہم نے کہا جناب یہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن جید کہا ہے۔ بلکہ علامہ البانی نے بھی اس کی تحسین کی ہے۔ آپ کے عالم غلام مصطفی ظہیر صاحب نے بھی اسے درست مانا ہے تو آپ کیسے موضوع کہہ سکتے ہیں؟ اس پر ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ کہنے لگے کے انہوں نے علامہ البانی کا پردے کے موقف پر رد کیا ہے اور البانی صاحب نے کچھ احادیث پر غلط حکم لگائے۔

3۔ پھر وسیلہ پر بات ہوئی۔ میں نے کہا آپ نے اپنی ویڈیوز میں شیخ البانی پر بھروسہ کیا ہے روایات کو ضعیف کہنے پر۔ پہلی بات سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی روایت مطلق ہے اور آپ کے علامہ قاضی شوکانی نے بعد از ظاہری وصال نبی اس روایت سے وسیلہ پر استدلال کیا ہے۔ اور وہ دوسری روایت کے بعد از وفات ظاہری انہی عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے نبی کریم کو پکار کر وسیلہ پکڑنے پر حجت پکڑی ہے۔ یہ روایت بھی بلکل صحیح ہے۔ اور آپ نے علامہ البانی پر بھروسہ کر کے مالک الدار رحمہ اللہ والی روایت کے ایک شخص (صحابی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آیا اور کہا کے ایے نبی ہمارے لیے بارش کی دعا کریں۔ اس کو آپ نے البانی صاحب پر بھروسہ کر کے ضعیف کہا جبکہ امام ابن کثیر اور امام ابن حجر عسقلانی نے اسے بھی صحیح کہا ہے۔ اس کا بھی ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

4۔ دوران گفتگو حضرت لعل شہباز قلندر رحمہ اللہ کی بات ہوئی تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں زندیق کہا۔ ہم نے پوچھا کیوں زندیق کہہ رہے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر بعد میں ڈاکٹر صاحب خود کہنے لگے کے ہم کسی مسلمان کو قافر و زندیق نہیں کہتے۔ ہم نے کہا تو پھر لعل شہباز کو کیوں کہہ رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب پھنس گئے۔

خیر اور بھی گفتگو ہوئی۔ باقی باتیں آپ کو میری تحریروں میں مل جائیں گی جو میں نے ڈاکٹر صاحب کے جواب میں لکھی۔ اوپر لنک دے چکا ہوں۔

اللہ، وہابی و اہل حدیث لوگوں کو توفیق دے کے وہ جمہور مسلمانوں پر شرک کا الزام لگانے سے باز آ جائیں۔

والسلام

عامر ابراہیم