اصحابِ رسول صلی اللٰہ علیہ وسلم کے دینی عقائد میں انتہائی فروعی اختلافات کے علاوہ کوئی اختلاف نہیں تھا، تمام بنیادی اور ثانوی باتوں پر وہ متفق تھے۔ گویا ان میں فرقے یا مسالک نہیں تھے۔ میں جہاں تک تاریخ کو پڑھ کر سمجھ سکا ہوں، سیدّنا عثمان ذولنورین رضی اللٰہ عنہ کی شہادت کے وقت تک ان میں سیاسی جماعتیں یا دھڑے بندی بھی نہیں تھیں۔ سب مسلمان ایک ہی سیاسی جماعت تھے، ان کی سیاسی رائے میں اختلاف ہوسکتا تھا، ان کے رجحانات مختلف ہوسکتے تھے لیکن جب ایک بار عام بیعت ہوجاتی تو سب ایک خلیفہ کی امامت پر متفق رہتے اور وہ خلیفہ مشاورت سے حکومت چلاتا۔
سیدّنا عثمان رضی اللٰہ عنہ کی شہادت کے بعد دو سیاسی جماعتیں بن گئیں۔
۱۔ سیدّنا علی رضی اللٰہ عنہ کی جماعت
۲۔ سیدّہ عائشہ رضی اللٰہ عنہا کی جماعت
سیدّہ عائشہ کی جماعت میں شامل کچھ شرارتی عناصر بعد میں شام چلے گئے اور امیر معاویہ بن ابی سفیان کی قیادت میں الگ جماعت ترتیب دے لی۔ سیدّنا علی رضی اللٰہ عنہ کی سیاسی جماعت میں شامل شرپسند عناصر جنگ صفین کے موقع پر خوارج کے نام سے الگ ہوگئے۔ یوں ان سیاسی دھڑوں کی تعداد چار ہوگئی۔
ان میں سے خوارج وہ پہلا دھڑا تھے جن کے مذہبی عقائد بھی جدا ہونا شروع ہوگئے۔ اس حوالے سے ان کی سب سے پہلی اور نمایاں گمراہی یہ تھی کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا اور اس مسئلے میں دیگر مسلمانوں کا عقیدہ یہ نہیں تھا۔ یوں خوارج کو اسلام میں پہلا باقاعدہ مذہبی فرقہ سمجھا جاتا ہے۔
خوارج کے بعد قرون اولیٰ میں یعنی پورے اموی دور اور عباسی دور کے پہلے ایک سو دس سالوں میں کئی چھوٹے چھوٹے فرقے بننے لگے جن میں مرجئہ اور معتزلہ نمایاں نام ہیں۔ اس دور میں سیاسی محاذ پر خوارج اور دینی محاذ پر معتزلہ نے ہی سب سے بڑا چیلنج دیا۔ شیعان علی کی سیاسی جماعت میں، بالخصوص عراق اور مصر کے اندر کچھ چھوٹی چھوٹی انتہاء پسندجماعتیں امامی عقائد تک بھی پہنچ گئیں اور یوں اسی دور میں یہ فرقہ بننے لگ گیا لیکن چونکہ ائمہ اہلبیت حیات تھے اور خانوادہ رسول ابھی نہ صرف منظم بلکہ اپنی لیگیسی اور دینی ذمہ داریوں کے حوالے سے حساس تھا، لہذا مختلف نوعیت کے عقائد رکھنے والے یہ امامی فرقے اس دور میں زیادہ پنپ نہیں سکے۔
قرون اولیٰ میں یہ مذہبی بحثیں چلتی رہیں۔ اصل بحث اس دور میں معتزلہ اور غیر معتزلہ کے درمیان تھی۔ ان کے علاوہ مرجئہ، خارجیہ اور امامیہ کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی تھیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی فرقہ مسلک کہلانے کا مستحق نہیں تھا۔ ان کا ذخیرہ حدیث، فقہ، علم الکلام اور روحانی روایت ڈویلپ نہیں ہوئی تھی۔ یہ لوگ مسلمانوں کی مرکزی جماعت ہی کے مارجنز پر رہتے تھے۔ خود مرکزی جماعت کا ذخیرہ حدیث، فقہ، علم الکلام اور تصوف ابھی تشکیلی دور میں تھا۔
امامیہ فرقے کو پہلی مرتبہ سیاسی قوت عباسیوں کی انتشار کے زمانے میں ملی جن قرون اولیٰ کا اختتام ہورہا تھا۔ یہ اقتدار انہیں مغربی ایران اور شمالی عراق کی طرف آلِ بویہ کی قیادت میں میسر آیا۔ یہیں امامی پہلی مرتبہ منظم ہوئے اور عزیٰ داری جیسی رسوم کا آغاز ہوا
قرون اولیٰ کے بعد قرون وسطیٰ کا دور آیا۔ اس دور کی سب سے اہم سلطنت سلجوق ہیں۔ سلجوق دور میں مسلمانوں کی مرکزی جماعت نے اپنے علم حدیث، فقہ، علم الکلام اور تصوف کو فائنل ٹھوس شکل دے دی۔ امام غزالی اس تکمیل کی علامت ہیں۔ یہ مرکزی جماعت اہلسنت والجماعت کہلاتی ہے۔ اس جماعت نے تاریخی پس منظر میں سیدّنا علی رضی اللٰہ عنہ کی جماعت کے سیاسی موقف کی ہی تائید کی۔ لہذا آج تقریباً سب مسلمان پہلی صدی ہجری کی ڈیفینیشن کے لحاظ سے شیعانِ علی نام کی سیاسی جماعت سے ہی متصل ہیں۔
دوسری طرف امامیوں کی ایک جماعت مصر اور اردو گرد کے علاقوں میں قوت پکڑ گئی اور فاطمی سلطنت بنی۔ فاطمی سلطنت میں امامی فرقے کی دینیات کو کافی ترقی ملی لیکن آج جو امامی جماعت ہمیں سب سے نمایاں نظر آتی ہے، یہ وہ امامی جماعت نہیں تھی۔ وہ اسماعیلی تھے جن کے عقائد آج کے اثناعشریوں سے کافی مختلف تھے۔
سولہویں صدی عیسوی سے قبل آٹھ سو سالہ زمانے میں اثناعشری ہمیں کہیں اہمیت یا قوت یا توجہ حاصل کرتے نظر نہیں آتے۔ اہلسنت کے غلبے کے سارے علاقے میں امامیوں اور عام مسلمانوں میں فرق اکثر واضح ہی نہیں ہوتا تھا۔ امامی عقائد کے لوگ بھی سنّیوں کے مارجنز پر ہی رہتے تھے اور اکثر باطنی نوعیت کی متصوفانہ تحریکوں سے گھل مل جاتے تھے۔
موجودہ امامیہ نے پہلی بار مسلک کی صورت ابتدائی جدید دور یعنی گن پاؤڈر ایمپائرز (عثمانی، صفوی، مغل) کے زمانے میں حاصل کرنا شروع کی۔ صفویوں نے عثمانیوں سے الگ رہنے اور اپنے اقتدار کو دینی دلیل دینے کے لیے امامی اثناعشری فرقے کو باطنی متصوفانہ رجحانات کے مارجنز سے نکال کر ایک باقاعدہ مسلک اور قوت بنا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صفوی خود ایک باطنی صوفی سلسلے صفویہ سے شروع ہوئے تھے لیکن صفوی ایران میں تصوف اور صوفیوں کو بہت زیادہ ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران تصوف کا روایتی گڑھ تھا لیکن تصوف کو اس کے گڑھ سے باہر نکال دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تصوف اور تسنن ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوچکے تھے اور تسنن سر تا پا صوفی رنگ میں رنگا تھا۔ تصوف کو نکالے بغیر تسنن کو بھی نہیں نکالا جاسکتا تھا۔
صفوی اور مغل دور میں ہی ایران اور ہند کے اندر اثناعشری امامیوں کے بڑے بڑے علماء آئے جن میں سب سے نمایاں نام ملاّصدرا کا ہے۔ ان کی امامی ذہن کے لیے تقریباً وہی حیثئیت ہے جو سنّی ذہن کے لیے امام غزالی کی۔ یہ امام غزالی کے کوئی پانچ سو سال بعد ہوئے۔
حاصل کلام یہ کہ موجودہ “شیعہ سنی تقسیم” کوئی چودہ سو سال پرانا قصہ ہرگز نہیں ہے۔ اسے ابھی پانچ سو سال ہی ہوئے ہیں۔
امامیہ اور اہل السنہ کی دینیات اب تک تغیر پذیر ہے۔ خود تسنن بھی جدید دور میں کافی تبدیل ہوا ہے۔ مثال کے طور پر قرون وسطیٰ میں ہندوستان کے اندر چشتی سلسلے کے زیر اثر مختلف طرز کا تسنن رائج تھا جس کا زور اسلام کو مقامی رنگ میں رنگ کر اسے یہاں قبولیت عام بخشنا تھا۔ مغل دور میں نقشبندی مجددی سلسلے کے زیر اثر تسنن تبدیل ہونا شروع ہوا کیونکہ اب دین کو پوری طرح مقامی رنگ میں رنگنے سے بچانا اور اس کے جداگانہ تشخص کو ختم ہونے سے بچانا ضروری تھا۔ اسی تحریک نے بعد میں دیوبندی و بریلوی کلیساؤں کی بنیاد رکھی۔
دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں سلفی تحریک کی مختلف لہریں اٹھیں جن میں کچھ وہابیوں کی صورت الٹرا کنزرویوٹو تھیں اور کچھ محمد عبدہ اور رشید رضا جیسے “اسلامی جدت پسندوں” کے صورت ماڈرن۔ عرب بادشاہتوں اور آمریتوں نے اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر ان ذیلی فرقوں کو ترقی و ترویج دی۔
امامی بھی صفوی دور کے بعد تغیرات سے گزرے جن میں سب سے نمایاں تغیر ۱۹۷۹ کا اسلامی انقلاب اور ولایتِ فقیہ کا نظریہ ہے۔
امامیوں اور سنیّوں کے اختلاف میں بنیادی اختلاف امامت کی دینی نوعیت پر ہے۔ امامی بنیاد طور پر اسلام کے کیتھولک ہیں۔ جس طرح کیتھولک پاپائے رومہ کو سیدّنا مسیح علیہ السلام کا جانشین اور عقائد کے معاملات مین معصوم عن الخطاء مانتے ہیں، اسی طرح امامی بارہ اماموں کو اللٰہ کی طرف سے مامور خلیفتہ الرسول اور امام المسلمین اور معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں۔
دوسری طرف اہلسنت اسلام کا اورتھوڈوکس مسلک ہے۔ قیادت کے حوالے سے ان کا اصولی موقف پاپائی یا پیشوائی موقف کی بجائے ریپبلکن موقف ہے۔ وہ خلیفہ کو بنیادی طور پر ایک روحانی نہیں بلکہ دنیوی لیڈر سمجھتے ہیں جسے اصولی طور پر مسلمان مشورے سے منتخب کرتے ہیں۔ تاہم زمانی و مکانی تقاضوں کے تحت اس اصولی موقف پر کئی سمجھوتے ہوتے آئے ہیں۔
اسلام کا سب سے زیادہ جمہوری اور سختی سے ریپبلکن فرقہ خوارج تھے۔ عام مسلمانوں نے تو عرب کے معروضی حالات کے پیش نظر یہ اجتہاد کیا کہ خلیفہ قریش سے ہی چنا جائے لیکن خوارج نے اپنی انتہائی اصول پسندی میں اس اجتہادی اصول کو بھی اڑا دیا۔
آج کے دور میں خوارج کی ایک انتہائی معتدل شکل اباضی فرقے کی شکل میں موجود ہے۔ یہ کئی لحاظ سے تضادات کا حامل فرقہ ہے۔ ایک طرف یہ متشدد تحریک سے نکلنے والا فرقہ ہے تو دوسری طرف آج یہ سب سے پرامن فرقہ ہے۔ ایک طرف یہ لوگ پیوریٹینکل ہیں اور فقہ میں اجتہاد سے بھی خائف ہیں تو دوسری طرف ان کا علم الکلام اشعریوں یا ماتر یدیوں سے زیادہ امامیہ اور معتزلہ کے عقلیت پسند علم الکلام کی طرف مائل ہے۔ امامت عمان کے خاتمے اور سلطنت عمان کے قیام اور اباضی ملاّئی کلاس کے سبب اباضی تضادات اور بھی گہرے ہوگئے ہیں۔
پری صفوی پری اثناعشری کلاسیکل امامیہ کی کئی شکلیں بھی اب تک موجود ہیں لیکن بہت مارجنل ہوچکی ہیں۔ ایک انتہاء پر اسماعیلی جماعتیں ہیں جو اثناعشریوں سے بھی بڑھ کر جداگانہ رنگ روپ رکھتی ہیں اور دوسری طرف زیدی ہیں جو امامی ہوتے ہوئے بھی دیگر امامیوں سے زیادہ اہلسنت سے مشابہت رکھتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ عقائد کا ایک دلچسپ سپیکٹرم ہے جسے تعصب کی بجائے تاریخ، سماجیات اور علم دوستی کے نکتہ نظر سے پڑھنا چاہیے۔
– احمد الیاس