صحابہ کی حضرت معاویہ کے ساتھ صلح

‎بہترین صحابہ اور مسلمانوں کے سرخیل حضرت معاویہ کے ساتھ صلح میں یہ مانتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ یہ امت کی تباہ کن خانہ جنگی سے نکلنے کے لیے سمجھوتے پر مبنی حل ہے۔ اس کا محرک امت کی قیادت کے لیے معاویہ کی اخلاقی اہلیت پر ان کا اطمینان نہیں تھا۔

‎اس پر وہ اقوال دلالت کرتے ہیں جو عبداللہ بن عمر، حسن بن علی اور حسین بن علی سے منقول ہیں۔ یہ حضرات اس وقت امت کے قائدین اور اس کے اجتماعی ارادے کی ترجمانی کرنے والوں میں سے اہم ترین لوگ ہیں۔

‎ہم نے اس سے پہلے ابنِ عمر کا قول نقل کیا تھا جس میں اشارہ معاویہ کی طرف تھا :

‎میں نے کہنا چاہا کہ اے معاویہ، خلافت کے معاملے میں تم سے زیادہ حق دار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کی خاطر جنگ کی تھی، لیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ ایسی بات نہ کہہ دوں جو جمعیت کو بکھیر دے اور خون خرابے کا سبب بنے۔

‎(صحیح بخاری 1508/4)

‎حسن بن علی سے بھی ایسی بات منقول ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی اس معاملے کو اسی زاویے سے دیکھا۔ اس معاملے کو معاویہ کے حوالے کردینے کا ان کا محرک عبداللہ بن عمر کے محرک کی طرح مسلمانوں کے خون کی حفاظت اور اُمت کے بکھر جانے کا خوف تھا، اسلامی اُمت کی قیادت کے لیے معاویہ کی اخلاقی اہلیت پر اطمینان ہرگز نہیں۔ عام الجماعہ میں معاویہ کے حق میں دست برداری والے خطبے میں حسن نے کہا تھا :

‎ہم نے معاویہ کو حکومت دی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خون بچالینا بہتر ہے اور میں نہیں جانتا، ہوسکتا ہے یہ تمہارے لیے فتنہ ہو۔ تو کچھ دیر کے لیے اس سے فائدہ اٹھا لو۔

‎(الذھبی، سیر اعلام النبلاء، 271/3۔ وقال محققہ الشیخ شعیب الارنؤوط : اسنادہ صحیح۔)

‎اُمت کی وحدت کی خاطر حکومت کے اسلامی اصولوں کو قربان کردینے کے فارمولا پر سب سے کم اطمینان رکھنے والے حسین تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ حقیقی فتنہ معاویہ کی حکومت کا استحکام ہے کیوں کہ معاویہ تلوار لے کر جائز اقتدار کے خلاف نکلے اور اس وقت امت کا معاملہ امت کو لوٹانے سے انکار کردیا جب تحیکم میں ابوموسیٰ اشعری نے اس کی تجویز رکھی۔

‎حسین نے معاویہ کو لکھا :

‎۔۔۔ اور میں آپ سے جنگ کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ مخالفت کا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ آپ کے خلاف جہاد نہ کرنے کا اللہ کے یہاں میرے پاس (صلحِ حسن کے سوا) کوئی عُذر ہے۔

‎(ابنِ عساکر 206/14)

‎بہرصورت، حسین صلحِ حسن کے پابند رہے۔ (اگر یہ صلح نہ ہوتی تو وہ اقدام جو انہوں نے معاویہ کے بعد کیا، معاویہ کے دور میں ہی کردیتے)۔

‎اور جب یہ امر بے نقاب ہوگیا کہ عام الجماعہ میں حالات کے تحت اسلام کے سیاسی اصولوں سے دست برداری کا نتیجہ اس صورت میں سامنے نہیں آیا کہ معاویہ کے فوت ہونے کے بعد جماعت کا معاملہ جماعت کی طرف لوٹ آتا بلکہ معاویہ نے اسے اپنے خاندان میں ہمیشہ رکھنے کے لیے استعمال کرلیا اور ایک ایسی مستقل صورتِ حال بنا دی جو اسلامی سیاسی قدروں کو درکنار کرکے وراثت اور زور آوری کی بنا پر قائم رہے۔ اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے مختلف حصوں میں خونی تحریکیں پھوٹ پڑیں جو اسلامی سیاسی قدروں اور خلافتِ راشدہ کے آئین کی بازیافت کے لیے کوشاں تھیں۔ صحابہ اور ابنائے صحابہ جنہوں نے خلافتِ راشدہ کا زمانہ پایا تھا وہ شوریٰ اور عدل جیسی قدروں سے آسانی کے ساتھ دست بردار ہونے پر تیار نہیں تھے۔

‎مدینے کے لوگ جو اپنے ذہنوں میں نبوی ریاست اور خلافت راشدہ کی سب سے زیادہ یادیں محفوظ رکھتے تھے، معاویہ کی کوششوں کو ردّ کرنے کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت تھے۔ انہوں نے حجاز کے گورنر، عثمان کے کاتب اور طلحہ کے قاتل مروان بن حکم کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کردیا جب اس نے معاویہ کے حکم پر یزید کے لیے بیعت لینے کی کوشش کی۔ بخاری نے اسے روایت کیا ہے :

‎مروان نے خطبہ دیا اور یزید بن معاویہ کا ذکر کرنے لگا تاکہ اس کے باپ کے بعد اس کی بیعت لی جائے۔ عبدالرحمان بن ابوبکر نے اس سے کچھ کہا۔ مروان نے کہا کہ اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمان اپنی بہن عائشہ کے گھر میں داخل ہوگئے اور وہ انہیں پکڑ نہ سکے۔ تب مروان نے کہا نے شک یہی ہے وہ جس کے بارے قرآن کی آیت نازل ہوئی ہے کہ “اس نے اپنے والدین سے کہا کہ افسوس ہے تم پر”. عائشہ نے اوٹ کے پیچھے سے کہا کہ اللہ نے آلِ ابوبکر کے سلسلے میں قرآن میں کچھ نازل نہیں کیا سوائے اس کے جو میرے برات نازل ہوا.

‎(صحیح بخاری 133/6)

‎وہ “کچھ” کیا ہے جو عبدالرحمان بن ابوبکر نے کہا اور بخاری نے نقل نہیں کیا ؟ سنن نسائی میں اس کی تصریح ہے :

‎جب معاویہ نے اپنے بیٹے کی بیعت لی تو مروان نے کہا کہ یہ ابوبکر و عمر کا طریقہ ہے۔ اس پر ابوبکر کے بیٹے عبدالرحمان بول اٹھے کہ ابوبکر و عمر کا نہیں، یہ قیصر و کسریٰ کا طریقہ ہے۔

‎(قال البانی فی سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 722/7، اسنادہ صحیح)

‎ابنِ رجب حنبلی نے اس بات کو اور واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں :

‎امامتِ عظمیٰ کا استحقاق نسب سے نہیں ہوتا اور اسی لیے صحابہ نے اس پر نکیر کی جس نے اپنے بیٹے کی بیعت لی۔ خلیفہِ اول کی بیٹے عبدالرحمان بن ابوبکر نے کہا : تم اسے قیصر و کسریٰ کے طریقے پر لائے ہو۔ اسے عائشہ اور دیگر صحابہ نے سنا اور عبدالرحمان کی بات کی نفی نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹوں کے لیے بیعت لینا روم اور فارس کا طریقہ ہے۔ مسلمانوں کا طریقہ تو مشورے کے ساتھ اس کی بیعت ہے جو افضل اور مسلمانوں کے لیے بہتر ہو۔

‎(فتح الباری، شرح صحیح البخاری، 474/3 )

‎علیہم الرضوان

‎کتاب : اسلامی تمدن میں آئینی بحران

‎مصنف : محمد مختار شنقیطی (استاذِ سیاسی فکر، قطر یونیورسٹی)