اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی

مجھے ہمیشہ محسوس ہوا ہے کہ نظریاتی اعتبار سے علامہ ابن تیمیہ کے اینٹی تھیسز سمجھے جانے والے اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی مزاج کے اعتبار سے ابن تیمیہ سے بہت مشابہ تھے۔ دونوں بزرگ بلا کے ذہین تھے لیکن مزاج کی شدت نے دونوں کو راہِ اعتدال سے ہٹا دیا۔ ابن تیمیہ نے ابن العربی کو سمجھے بغیر ان پر کفر کے فتوے لگائے تو اعلیٰ حضرت سے یہی ظلم مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمود الحسن جیسے بزرگوں کے باب میں سرزد ہوا۔ (اگرچہ دیوبند نے بھی بہت نا انصافیاں کیں)

اعلیٰ حضرت ان فرقہ وارانہ مسائل میں پڑنے کی بجائے فقہ و اجتہاد پر توجہ دیتے تو امام بدرالدین عینی اور مُلاّ علی قاری کے درجے کے بزرگ ہوسکتے تھے۔

آپ اس نسل کے آخری نمائندے تھے جو مدارس میں دین کے ساتھ ریاضی، فلسفہ اور کچھ سائنس بھی پڑھا کرتی تھی۔ اس کے بعد یہ علوم کالج یونیورسٹی کے پاس چلے گئے اور مدارس میں صرف کچھ مذہبی علوم رہ گئے۔ اس وجہ سے اعلیٰ حضرت ریاضی اور سائنس پر بھی رائے دیا کرتے تھے۔ مسئلہ یہ ہوا کہ ان کے مقلدین نے ان کی اس رائے کو بھی دینیات کا حصہ سمجھا اور “زمین چپٹی ہے” جیسے نظریات سے چمٹے رہے۔ حالانکہ احمد رضا خان رح اِس دور میں ہوتے تو خود غالباً اس رائے سے رجوع کرچکے ہوتے۔

حد یہ ہے کہ ان کی ان علوم میں رائے کو بھی وہبی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں ایک طرح سے ڈی فیکٹو نبی یا معصوم امام کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ان کے نام پر ایک فرقہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ یہ سب اعلیٰ حضرت ہرگز نہیں چاہتے تھے۔

وہ یقیناً بہت بڑی شخصیت اور ذہین عالم تھے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان سے بڑی شخصیات نہیں ہوئیں۔ اسلامی تاریخ میں تو بہت قدآور علماء ہیں لیکن خود ہمارے عہد اور خطے میں پیر مہر علی شاہ رح اعلیٰ حضرت سے کہیں بڑی شخصیت ہیں۔ نا صرف علم میں ان کی فضیلت مسلم ہے بلکہ مزاج کے اعتبار سے بھی تاجدارِ گولڑہ تاجدارِ بریلی سے بدرجہا معتدل اور متوازن تھے۔ مرزائیت کے خلاف جہاد میں ان کی خدمات تو بے مثال ہیں ہی، اتحاد بین المسلمین کے لیے بھی ہمیں پیر صاحب کے راستے پر چلنا ہوگا۔ پیر مہر علی شاہ کے عقائد اور نظریات وہی تھے جو اعلیٰ حضرت کے ہیں لیکن آپ نے کبھی کسی دیوبندی، اہلحدیث یا شیعہ امامی کو کافر نہیں کہا۔ یہی طرزِ عمل صوفیاء کا حقیقی طرزِ عمل ہے اور یہی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

اہل ہند کا مزاج ہے کہ تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں اور اپنے معمولی لوگوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ اہل پنجاب کا یہ مسئلہ ہے کہ اپنے بڑے بڑے لوگوں کو بھی معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ خطہ پنجاب رجال کے معاملے میں گنگا جمنا سے کہیں زرخیز ہے۔ ادب اور تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ دینیات کا بھی ہے اور پیر مہر علی شاہ رح جیسے شخص کو چھوڑ کر پنجاب کے صوفی کلچر کو یو پی کی فرقہ واریت کی نظر کردینا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

بہرحال، اعلیٰ حضرت کا ایک کارنامہ ایسا ہے جو صرف یوپی یا برصغیر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے تہذیبی ورثے کا شاندار جزو ہے۔ ادبی نقادوں کی طرف سے اردو ادب کے بے مثال نمونوں کو صرف مذہبیت کی بنا پر نظر انداز کیا جانا ایک ایسا جرم ہے جو اپنے آپ میں ایک تحریر کا متقاضی ہے۔

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم

جس سمت آ گئے ہو سکّے بٹھا دیے ہیں

اللہ اعلیٰ حضرت کی لحد کو جنت کا باغ بنائے۔ آمین۔

احمد الیاس