تحریکِ خلافت، ہجرت اورابوالکلام آزاد

قاضی محمد عدیل عباسی پکے خلافتی اور کانگرسی تھے۔ اپنی مشہور کتاب “تحریکِ خلافت” میں انھوں نے بدلائل ثابت کیا ہے کہ 1920 میں ہجرت کا فتویٰ مولانا عبد الباری نے نہیں بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد نے دیا تھا۔ اس فتویٰ میں انھوں نے لکھا تھا:

“تمام دلائل شرعیہ حالات حاضرہ و مصالحِ مہمہ امت اور مقتضیات و مصالح پر نظر ڈالنے کے بعد پوری بصیرت کے ساتھ اِس اعتقاد پر مطمئن ہو گیا ہوں کہ مسلمانانِ ہند کے لیے بجز ہجرت کوئی چارہ شرعی نہیں۔ اُن تمام مسلمانوں کے لیے جو اِس وقت ہندوستان میں سب سے بڑا اسلامی عمل انجام دینا چاہیں، ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں۔” (ص ۔ 153 لاہور: جمہوری پبلیکیشنز، 2009)

پنجاب اور سندھ کے ہزاروں خاندانوں نے مولانا کے اس فتوے پر عمل کرتے ہوئے اپنی جائدادیں سستے داموں فروخت کرکے افغانستان کی راہ لی اور تباہ و برباد ہوگئے۔ کیا امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے اس فتویٰ پر اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے اثرات پر ان تباہ حال مسلمانانِ ہند سے کبھی معذرت کی تھی یا ایسا کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی؟

حافظ صفوان